میری پیدائش ایک ہیلتھ سینٹر میں ہوئی تھی، جس میں کراچی سے تعلق رکھنے والی دو خواتین سسٹرز، یعنی اس دور کے نرسز، کام کر رہی تھیں۔ ان کے چہرے اور لہجے بھول چکا ہوں۔ امی کو شائد اب بھی یاد ہوں۔ بہت سال قبل گھر میں موجود ان کی تصویریں دیکھنے کے باعث پردہ خیال پر ان کی شکلوں کے خاکے سے بنے ہوے ہیں۔
آپ سوچیں گے کہ ہیلتھ سینٹر میں پیدا ہونا کونسے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ بے شک۔ آپ کی بات درست ہے
لیکن، یہ ۱۹۸۲ کی بات ہے جب پورے گلگت بلتستان میں صحت کی سہولیات، بالخصوص ماوں اور بچوں کے لئے، نہ ہونے کے برابر تھیں۔کچھ لوگ کہیں گے کہ گلگت بلتستان میں تو صحت عامہ آج بھی اُسی حالت میں ہے تو ایک محتاط حد تک شائد میں ان کا حامی بھروں گا۔
گزشتہ چند سالوں سے سیاحت کے شوقین حضرات وخواتین، اور دیگر جنس والے، گلگت بلتستان کے چپے چپے میں سکون، حسن اور ایڈوینچر کی تلاش میں آتے تھے۔ لیکن، کراچی سے تعلق رکھنے والی یہ خواتین ہنزہ کے بالائی علاقے میں واقع دور افتادہ گاوں میں چالیس سے زائد سال قبل، جہاں اُس وقت نہ بجلی تھی، نہ ذرائع مواصلات، نہ ہی کوئی اور جدید سہولیات زندگی، بالآخر کیا کرنے آئی تھیں؟
ان خواتین اور اس ہیلتھ سینٹر کی اس دورافتادہ گاوں میں موجودگی کا پسِ منظر اور اس سے جڑے دیگر حقائق بیان کرنے کی کوشش کر رہاہوں۔
آخرتک جُڑے رہیں۔
علاقے کا پس منظر یہ تھا کہ ۱۹۷۴ میں ہنزہ کی بعض حوالوں کے مطابق ہزار سال پرانی ریاست بھٹو کے ہاتھوں تحلیل ہوچکی تھی۔ میروں کے جانے کے بعد بیوروکریٹس ہمارے حکمران بن چکے تھے، جبکہ اصل حکمران پینشن گزار ہونے کے بعد جمہوری انتخابات کے ذریعے ایک بار پھر حلقہ حکمرانی میں شامل ہونے کی تگ و دو کر رہے تھے۔ سقوط ہنزہ ایک بہت بڑا تاریخی واقعہ تھا، جس کے منفی اثرات دھیرے دھیرے عیاں ہو رہے ہیں۔ ہزاروں سالوں سے ایک ہی نظام سے بندھے لوگ اچانک بے یقینی اور مکمل طور پر نئی سماجی و سیاسی منظر نامے کا حصہ بن چکے تھے۔ لیکن ۱۹۷۴ میں سقوط ریاست ہنزہ سے پہلے بھی ایک بڑا کام ہو چکا تھا۔
۱۹۴۸ میں علاقے میں ایک ڈائمنڈ جوبلی سکول کا قیام عمل میں آیا تھا، جس کے بعد گنے چنے افراد پڑھنا لکھنا جان گئے تھے۔ شنید ہے کہ انہیں ڈائمنڈ جوبلی سکولز اس لئے کہا جاتا تھا کہ یہ آغا خان سوئم، جہیں ان کے مریدوں اور معتقدین نے ہیروں میں تولا تھا، کی ہدایت کے مطابق ان کی مالی امداد کے نتیجے میں آئی تھیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ ۱۹۴۷ میں مملکت پاکستان وجود میں آچکا تھا، اور ہنزہ کے حکمرانوں نے پاکستان میں شمولیت کی خواہش کا اعلان بذریعہ ایک خط کیا تھا۔یہ الگ بات ہے کہ اس اعلان پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔ کچھ لوگ تو خط کو ہی جعلی سمجھتے ہیں!
۱۹۴۸ میں سکولوں کے قیام سے لے کر میری پیدائش تک ڈیڑھ نسلیں گزر چکی تھیں۔میرے والد صاحب، تایا، چچا اورخاندان اور گاوں، بلکہ سارے علاقے کے تقریباً ہر خاندان کے کچھ افراد کراچی اور ملک کی مختلف کالجز اور جامعات سے فارغ التحصیل ہوچکے تھے۔ اس دوران سرکاری تعلیمی ادارے بھی قائم ہوچکے تھے، جس سے تعلیم کو مزید فروغ ملا تھا۔ لیکن یہ سرکاری تعلیمی ادارے صرف لڑکوں کے لئے تھے۔ لڑکیوں کی تعلیم پر سرکار کی نظرِ کرم ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔ دوسری طرف ڈائمنڈ جوبلی گرلز سکولز خواندہ ماوں کی ایک تازہ کھیپ تیار کرنے میں مصروف عمل تھے۔
دوبارہ کہانی کی طرف چلتے ہیں۔ کراچی کی دوخواتین میرے گاوں میں میر کے محل کے عقب میں واقع گارے اور پتھر سے بنے، مگر اس دور کے مطابق بہت خوبصورت اور صاف و شفاف، ہیلتھ سینٹر کی عمارت میں خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔ یہ ان دنوں کی بھی بات ہے جب ہمارے زیادہ تر خاندان ٹوائلٹ نامی جدید ایجاد سے ناواقف تھے۔
میرے گاوں میں ڈائمنڈ جوبلی سکول صرف لڑکیوں کے لئے تھی۔ لڑکے گورنمنٹ بوائز ہائی سکول میں پڑھتے تھے۔ دسویں جماعت تک میری تعلیم بھی اسی گورنمنٹ ہائی سکول میں ہوئی۔ ہماری ہم عمر کچھ لڑکیاں ششم کے بعد ڈائمنڈ جوبلی سکولوں سے نکل کر کریم آباد میں موجود آغاخان اکیڈمی میں تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ ان سے پہلے بھی بہت ساری لڑکیاں کریم آباد اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہوچکی تھیں۔ اُن میں سے اب بہت سارے اب نہ صرف اعلی تعلیمیافتہ ہیں بلکہ عالمی سطح کے بڑے بڑے اداروں کے سربراہان کے طور پر بھی کام کر رہی ہیں۔
میں دسویں میں تھا جب خبر ملی کہ گلگت شہر میں آغاخان ہائیرسیکنڈری سکول کے نام سے لڑکوں کے لئے کوئی بہت بڑا ادارہ قائم ہو رہا ہے۔خبر یہ بھی تھی کہ اس ادارے میں داخلہ صرف ان کو ملے گا جو مقابلاتی امتحان پاس کرنے کے بعد انٹرویو میں بھی سرخرو ہونگے۔ تایااور والد صاحب کی ہدایت اور حوصلہ افزائی پر ٹیسٹ میں شریک ہوا۔ ٹیسٹ بالائی گوجال کے گاوں سرتیز میں منعقد ہوا تھا۔ کچھ ہفتے بعد معلوم ہوا کہ پپو پاس ہوگیاہے۔ پھر پینل انٹرویو کے لئے علی آباد ہنزہ بلایا گیا۔ اس دشوار مرحلے میں بھی بھی کامیابی ملی، حالانکہ انٹرویو کا بڑا حصہ انگریزی میں تھا۔
زبان یارِ من ترکی ومن ترکی نمیدانم!
چند ماہ بعد ہی کریم کلر شرٹ اور گرین شرٹس میں ملبوس، اس پر ایک ٹائی سجائے، ہم ہنیسارا پر معلق کونوداس کے دو لرزتے اور چیختے چلاتے پلوں کے ذریعے کشروٹ آنے جانے لگے۔ یہ بھی ہماری زندگی کا ایک دلچسپ واقعہ ہے کہ اس سے پہلے ہم نے (یعنی میں نے) کبھی بھی ٹائی نہیں پہنی تھی۔ دس سالوں تک کالی شلوار قمیض ہمارے سرکاری سکول کی وردی تھی۔
دسویں تقریباً پاس (یاپھر فیل، کیونکہ نئے سکول میں داخلے کے باعث فیڈرل بورڈ کا امتحان نہیں دیا تھا) کرنے کے بعد دوبارہ پریپ نائن (آٹھویں اور نویں کے درمیان معلق جماعت) میں آنا پڑا۔ پریپ نائنتھ ہم کند ذہنوں، بالخصوص ہم پسماندہ سرکاری سکولوں سے تعلق رکھنے والوں کے لئے، تیاری کا سال تھا کیونکہ آگے مقابلہ سخت تھا، اور ہماری تیاری نہ تھی۔ ہمیں صرف انگریزی ہی نہیں سیکھنی تھی، بلکہ اپنی ٹوٹی پھوٹی اردو کو بہتر کرنا تھا،بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ سائنس اور ریاضی کی بنیادی تعلیم بھی دوبارہ حاصل کرنی تھی۔
اس دوران رہائش عظیم الشان درسگاہ شاہ کریم ہوسٹل میں تھی۔ کیا شاندار وقت گزرا۔ کھیل۔ دال۔ سونا۔ دُعا وبندگی۔ بزم ادب۔ سکاوٹنگ، سیر و تفریح۔ حرام خوری۔
اگر یہ کہوں تو شائد مبالغہ نہ ہو کہ ہاسٹل کی لائبریری میں موجود تقریباً ساری کتابیں کم از کم اک بار ضرور پڑھی۔ میں کھلے دل اوربہت عاجزی کے ساتھ اعتراف کرتا ہوں کہ اگر مجھ خردماغ و خر مزاج کو بشریت کے ڈگر پر کسی چیز نے گامزن کیا تو وہ آغا خان ہائیر سیکنڈری سکول گلگت کی تعلیم اورشاہ کریم ہاسٹل کی تربیت تھی۔
ڈسکاونٹ اور سکالرشپس کے بل بوتے پر پڑھتے اور بڑھتے گئے۔ ہنستے، گاتے، روتے، لڑتے، دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے چلے گئے۔ اور یہ سب اتنی تیزی سے ہوا کہ پلک جھپکتے میں پانچ سال گزر چکے تھے، اوراب اعلی تعلیم کے لئے اندرون ملک جانے کا جبر سہنا تھا۔ ادھر اُدھر ہاتھ پاوں مارنے کے بعد کراچی میں واقع ایک نجی یونیورسٹی میں داخلہ تو جیسے تیسے لے لیا، مگر مال ندارد۔
آغا خان ایجوکیشن سروسز کے سکالر شپ (جس کا نصف حصہ بطور قرض ملتا ہے) کے لئے اپلائی کیا۔ انٹرویو کے دو ادوار سے گزر کر سرخرو ہوا اور ایک بار پھر اعتماد کے ساتھ تعلیمی سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ الگ بات کہ بیچ میں ایک سمسٹر میں تباہ کن پرفارمنس کے باعث سکالر شپ معطل ہوگیا۔ پٹیل پاڑہ کے تنگ و تاریک مکان میں خاک پڑھائی ہوتی، خصوصاً ایک ایسے دانشگاہ میں جس میں اُن دنوں پاس ہونے کے لئے کم از کم ستر فیصد لانا ہوتا تھا؟
جھٹکا لگا تو دوبارہ سنبھلنا پڑا۔ دوبارہ کارکردگی دکھائی تو سکالرشپ بحال ہوگیا۔ جان میں جان آگئی۔ گھر والوں سے یہ سارا قضیہ چھپائے بیٹھا تھا۔ چار سالہ ڈگری پروگرام کے دوران میں گھر نہیں گیا۔ایک دفعہ گرمیوں کی چھٹیاں آغا خان یونیورسٹی میں بطور والٹئیر کام کیا، یا پھر یوں سمجھ لیجئے کہ والنٹئیر ہونے کے ناطے کم قیمت پر اے کے یو کیفیٹیریا میں مسلسل پیٹ پوجا کرتا رہا۔ پھر ڈاکٹر شمع ڈوسا کی مہربانی سے آغا خان یونیورسٹی کے سوشل سائنسز ڈپارٹمنٹ میں ایک تحقیق میں ان کی ادنی سی اعانت کا موقع ملا۔
ڈگری مکمل ہونے کے بعد آغا خان ایجوکیشن سروسز پاکستان کی سکالرشپ ڈارٹمنٹ کی رہنمائی میسر رہی اور پہلی فُل ٹائم نوکری بھی شروع کی، کراچی میں ہی۔ بعد ازین اسلام آباد منتقل ہوا۔ اور بھرتی کے کافی لمبے عمل سے گزرنے کے بعد فوکس ہیو مینیٹیرین اسسٹنس (جسے آج کل آغا خان ایجنسیٹی فار ہیبیٹاٹ کہا جاتا ہے) پاکستان نامی ادارے میں نوکری شروع کردی۔ تین سالوں کے بعد بوجوہ ذہنی انتشار کا شکار ہوا، اور پھر اس ادارے سے ہمارا دیس نکالا ہونے سے پہلے ہم خود ہی نکل گئے۔ اس کے بعد بھی ان اداروں سے بطور رضاکار بندھا رہا، جس سے میں نے تو شائد اداروں کو کچھ نہ دیا ہو، انہوں نے مجھے بہت کچھ دیا۔ ہاں، لیکن اے کے ای ایس کو پچاس فیصد قرض کی رقم ضرور اد کر دی، چند سالوں کے بعد ہی اور اس پر مجھے رتی بھر افسوس نہ ہوا، کیونکہ مجھے یقین تھا کہ یہ رقم میرے جیسے کسی اور کے کام آئے گی۔
بات طویل ہوگئی۔
اوپر لکھی گئی کہانی میری ہے لیکن اس کہانی میں مرکزی مثبت کردار کوئی دوسرا ہے۔ یہ وہ شخصیت ہے جس سے میں کبھی نہیں ملا۔ کبھی گفتگو کی سعادت نصیب نہیں ہوئی۔ جسے میں نے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران دو بار شائد بیس فٹ کے فاصلے سے دیکھا، لیکن جس نے میری زندگی کو بدلا اور سہارا دیا۔ وہ شخصیت جس نے نہ صرف مجھے خواب دیکھنے کی ہمت دی اور ترکیب بتائی، بلکہ خواب کو سچ کرنے کے لئے ایک مضبوط و مربوط نظام بھی فراہم کیا۔
وہ کردار، جس کے گن دنیا میں بہت سارے گزشتہ دو ہفتوں سے گارہے ہیں، وہ کردار جس کے دادا نے تقریباً آٹھ دہائی قبل میرے علاقے میں سکول قائم کیا، جس کے اداروں نے ہاسپیٹلز، ہیلتھ سینٹرز، زچہ و بچہ مراکز بنائے، جنہوں نے دیہاتیوں کو منظم ہو کر اپنی معیشت کو بہتر کرنے کی تدبیر بتائی، جس نے نکاسی آب سے لے کر بنجر زمینوں کو سیراب کرنے کے اسباب مہیا کئے۔
عقیدت اور عقیدے کو ایک طرف رکھیں اور تصور کیجئے کہ ۱۹۸۲ تک ہمارے علاقوں میں کوئی ایک بھی مقامی نرس نہیں تھی۔ اسی لئے کراچی کی اسماعیلی برادری سے تعلق رکھنیوالی دو نرسز ہمارے گاوں، اور نہ جانے کتنے دیگر دیہات، میں خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔ انہیں بھی ان کے امام نے ہی نرسنگ کی تعلیم حاصل کرنے اور انسانی خدمت کی ہدایت دی تھی۔ اسی لئے وہ چالیس سال قبل ہمارے گاوں بے سروسامانی کے عالم میں اپنی جان جوکھوں میں ڈالے، کیونکہ راستے بہت خطرناک تھے اور علاقے میں علاج معالجے کی سہولیات نہیں تھیں، کوڑیوں کے مول معاوضے کے عوض خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔
گزشتہ چند دہائیوں کے دوران حالات بدل چکے ہیں۔ ابھی آج ہی کی خبر ہے کہ گوپس سے تعلق رکھنے والی ہماری ایک بہن نے برطانیہ سے نرسنگ کے شعبے میں پی ایچ ڈی مکمل کر لی ہے۔ ایم ایس سی این، بی ایس سی این نرسز اور ڈاکٹرز کی تو ایک اچھی خاصی بڑی کھیپ تیار ہو چکی ہے، اور اب اپنی قابلیت کی بنیاد پر پوری دنیا میں پیشہ وارانہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ دوسرے شعبوں میں بھی ایسی برق رفتار تبدیلی آئی ہے کہ اب ہر ہفتے کسی نہ کسی کی بڑی کامیابی کی خبر پڑھنے کو ملتی ہے۔
جن اداروں میں یہ شخصیت خود اور ان کی اولاد پڑھتے تھے، اب انہی اداروں میں ہمارے دور افتادہ اور پسماندہ دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے درجنوں افراد، انہی کے بنائے ہوے نظام اور طرز فکر سے گزر کر، یا تو زیر تعلیم ہیں، یا پھر تعلیم حاصل کرکے کامیاب ہو کامران ہو چکے ہیں۔ جی ہاں، میں ہارورڈ، آکسفورڈ، براون یونیورسٹی، کیمبرج، میک گِل، ایم آئی ٹی، اور دیگر عالمی شہرت یافتہ تعلیمی اداروں کی بات کرہا ہوں۔
اس تحریر کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ سارے مسائل حل ہوگئے ہیں۔ بہت سارے مسائل ابھی حل طلب ہیں۔ بہت سارے نئے مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ ماضی کے کچھ منصوے خاط خواہ کامیابی سے تاحال ہمکنار نہیں ہوے ہیں، لیکن ایک حوصلہ ضرور ہے کہ اب ان مسائل کو حل کرنیکے لئے کچھ اور نہ بھی ہو تو تعلیمیافہ اور تربیت یافتہ انسانی وسائل ضرور موجود ہیں۔ دھیرے دھیرے ہی سہی، لیکن یہ مسائل بھی حل ہوہی جائیں گے۔
اُس شخصیت کے بارے میں ہم اور آپ یہ کیسے کہ سکتے ہیں کہ اب وہ ہم میں نہیں رہے جنہوں نے زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کی اور جس کی بنائے ہوے نظام کے بغیر آپ کی زندگی کی کہانی مکمل طور پر ادھوری ہوتی یا مکمل رائیگان رہتی؟
خلاصہ کلام، جو کچھ میں نے اوپر بیان کیا، اگر وہ شخصیت یہ سب نہ بھی کرتے تو پھر بھی ہم دل و جان سے ان کے معتقد اور مرید ہی رہتے۔ ہزاروں سالوں سے ہمارے آبا و اجداد نے خوفناک غربت اور پسماندگی کے باوجود، ان اماموں میں سے کسی کو کبھی زندگی میں دیکھے بغیر بھی ان کے خانوادے سے اپنا رشتہ استوار رکھا تھا۔ ہم بھی رکھتے۔
بلکہ شائد زیادہ جذباتی ہوتے اس رشتے کے حوالے سے۔
بعد از خواندن دل کو خوشی اور دماغ کو سکون نصیب ہوا۔
ReplyDeleteمھاجرت کے ایام میں انہی اداروں کے بدولت تعلیم جاری رکھنے کا اور مہارت سیکھنے کے مواقع ملتے رہے۔