Thursday, August 23, 2012

وادی گوجال کے ناشکرے

وادی گوجال پر کوئی افتاد نہیں پڑی. انہوں نے ایسے ہی باتیں بنائی ہوئی ہیں.

بات بس اتنی ہے کہ گزشتہ تین سالوں سے یہ علاقہ زمینوں کی تباہی، کاروبار کی بربادی، سیاسی نعروں کی بھرمار،کرپشن، لوٹ مار اور تھانے میں درج پرچوں کی تعداداور شرح اموات میں اضافہ جیسے چھوٹے موٹے مسائل کا شکار ہے. .

کچھ یار لوگ تو مذاقاً آج کل گوجال کا نام آفت زدہ علاقوں کے لیے استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں.

اب آپ بتائیں کہ اتنی چھوٹی سی بات ہے. اس پر رونے دھونے کی کیا ضرورت ہے؟

حکومت نے پورے تین سالوں سے اس علاقے کو ہر طرح سے نوازا ہے. نوجوانوں کی جیلوں میں مفت خدمت کی. ایک دو بندوں کو گولیاں مار کر آبادی جیسے گھمبیر مسلہ حل کرنے میں مدد کی. چند شر پسندوں کے خلاف دہشتگردی کے مقدمات قائم کیے.

آپ گنتے جائیں. ختم نہیں ہو پائیں گے حکومت کے کارنامے. لاکھوں احسانات ہیں حکومت پاکستان اور حکومت گلگت بلتستان کے وادی گوجال پر.

لیکن یه "ناشکرے" حکومت کے ممنون احسان ہونے کی بجائے قلمی"شرپسندی" میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ "ریاست مخالف مظاہروں" میں شریک ہوتے ہیں اور اگر اس "جرم" کی پاداش میں، بطور محبت ، ان کے کچھ نوجوانوں کی ہلکی پھلکی چھترول کی جائے، ان کے خلاف پرچہ درج کیا جائے، یا پھر ایک دو کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جائے تو کونسی قیامت آ جاتی ہے؟ کیوں روتے رہتے ہیں یہ لوگ؟

ناشکرے کہیں کے!

کل ایک حادثہ کیا ہوا انہوں نے حد ہی کر دی ہے. زور و شور کے ساتھ سوشل میڈیا میں """''ریاست مخالف" جذبات کا اظہار کرتے نظر آ رہے ہیں.

کونسی قیامت آ گئی ہے بھائی اگر ایک ٹریفک حادثے میں ٩ افراد جان بحق اور نو زخمی ہو گئے ؟ کوئی زلزلہ تو نہیں آیا ہے ؟

ایسا لگتا ہے انہوں نے کوئی حادثہ نہیں دیکھا۔

کم عقل کہیں کے!

اگرگلمت ہسپتال میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے خون میں لت پت زخمیوں کو ساٹھ کلومیٹر دور علی آباد منتقل کرنا پڑا تو کونسی قیامت آ گئی؟ کیا ہوا اگر تین، چار لوگ علاج کی خاطر طویل سفر کرنے کے بعد خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے جانبر نہیں ہو سکے؟ 

پاکستان میں روزانہ کم لوگ مرتے ہیں کیا ؟

پچهلے تین سالوں سے لیڈرز کا دماغ انہوں نے خراب کیا ہوا ہے کہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کو مکمل کیا جائے، پی سی فور منظور کیا جائے.

ڈھیٹ کہیں کے!

ان کو ایسا لگتا ہے جیسے ان عوامی لیڈرز ، شہید بھٹو کے سیاسی شاگردوں اور مریدوں، کے پاس کوئی اور کام ہے ہی نہیں.

ان عوامی رہنماؤں، بیچاروں، کو کتنا کام کرنا پڑتاہے، معلوم ہے؟؟ 

ان کو مہینے میں تین دفعہ اسلام آباد جانا پڑتا ہے، شریک چیرمین سے، بلاول بھٹو زرداری سے، آصفہ سے اور بختاور سے ملنا پڑتا ہے. اپنے بچوں کو ان سے ملانا پڑتا ہے. پالتو جانوروں کو اسلام آباد سے گلگت لانے کے لیے جہاز کا بندوبست کرنا پڑتا ہے. رشتہ داروں، عزیزوں اور یاروں کے لیے پی آئی اے کی فلائٹ میں نشست دلوانے کے لیے سفارش اورجدوجہد کرنا پڑتی ہے. یہ کوئی فارغ تھوڑی بیٹھے ہوئے ہیں؟

ہسپتال، ہسپتال، ہسپتال

چلا، چلا کر ہمارے رہنماؤں کی سماع خراشی کرتے ہیں.

بے وقوف کہیں کے!

اور ان صحافیوں کوذرا دیکھو! روز ان کی چخ چخ سن کر ہمارے جلیل القدر رہنماؤں کے کان پک گئے ہیں. ارے بھائی، ہمارے علاقے کاگورننس ماڈل تو پوری دنیا کے لیے مثال بنا ہواہے. ان جاہلوں کو خبر ہی نہیں ہے.

کیا کہا؟

امن و امان!

کیا خرابی ہے امن و امان کی صورتحال میں، میرے بھائی؟ سب ٹھیک ہے. یہ سب افواہیں دشمنوں نے اڑائی ہیں. یہ سب ریاست پاکستان، پاکستان پیپلز پارٹی اور جمہوریت کے دشمنوں کی کارروائیاں ہیں.

ہسپتال مانگتے ہیں ۔۔۔۔

سنو میرے پیارو. کان کھول کر سنو!

گلگت بلتستان میں نقص امن کا کوئی خدشہ ہے ہی نہیں. کچھ بھی تو نہیں ہوا ہے۔ یہ جو ساٹھ ستر لوگ مارے گئے ہیں، یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے. دوسرے صوبوں کو دیکھیں. وہاں کوئی کم لوگ مرتے ہیں ؟ وزیرستان اور بلوچستان کی نسبت تو گلگت بلتستان میں امن ہے.

ارے بھائی، آبادی کم ہے تو کیا ہوا!

بڑے بڑے ملکوں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں.

کرپشن؟

ارے میرے بھائی، کونسی کرپشن ہے گلگت بلتستان میں؟

دوبارہ کان کھول کر سن لو پیارے!

کرپشن پر ہمارا بھی حق ہے.

شکر کرو، نا شکرو! 
لاکھ بار شکر کرو!

تمہارا علاقہ گلگت بلتستان خوش نصیب ہے کہ اسے اتنے عظیم لیڈرز ملے ہیں. نیلسن منڈیلا اور مہاتیر محمد جیسے کل کے بچے تو ان کے گھروں پر پانی بھرنے اور جھاڑو پونچا لگانے آتے ہیں. یہ تو ابراہام لنکن کے بھی باپ ہیں.

اگر یہ کوئی کام نہیں کر سکتے ہیں تو تم کیوں ہلکان ہو رہے ہو؟ تمہارا ذاتی طور پر کیا نقصان ہو رہا ہے؟ تم کیوں پریشان ہوئے جا رہے ہو؟

زیادہ شور کرو گےتو بوٹ والے آجائیں گے. بوٹ والے.

خاموش، بد تمیز. 

جمہوریت کی افادیت پر سوال اٹھا رہے ہو؟

آمر کہیں کے.

اب زیادہ سوال مت پوچھو ورنہ ...... ......

چلو میرے نعروں کا جواب دو.

زور زور سے دینا.

نعرہ بھٹو .... جئے بھٹو.
اگلی باری .... پھر زرداری

ناشکرے کہیں کے.
مکمل تحریر >>

Tuesday, August 21, 2012

بد اعتمادی

بداعتمادی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب ایک طبقہ امن کی باتیں کرنے والوں اور اخوت کی تلقین کرنے والوں کو بھی کسی نادیدہ قوت کا ترجمان سمجھنے لگا ہے. ان کو لگتا ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی دانش اور اپنی فراست سے کام نہیں کر سکتا، اپنی دھرتی کو آگ سے بچانے کی کوشش نہیں کر سکتا، بلکہ کسی اور کے اشارے پر اچھی باتیں کر رہا ہے، یا اچھائی کی تلقین کر رہا ہے .

یہ رجحان انتہائی خوفناک ہے اور اسکے بے شمار سماجی و معاشرتی مضمرات ہیں. امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تو قرآن پاک کی تعلیمات کا حصہ ہے. انسانی جذبات اور احساسات کا خاصہ بھی یہی ہے کہ تباہی اور بربادی کے راستے پر چلنے کی بجائے امن، اخوت، محبت، برد باری، اور صلح جوئی کا انتخاب کرے. اچھائی کی تلقین کرنے والوں کی دل شکنی کرنے کی باتیں امید کی آخری کرنوں کو بجھا دینے کے مصداق ہے. اس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا.
مکمل تحریر >>

Wednesday, January 04, 2012

[Pictorial] From Gilgit to Skardu and Shigar

The journey from Gilgit begins. A beautiful view of the Jalalabad village 

On the way to Skardu  
The road to Skardu runs along the bank of Indus river

Small and large village dot the mountains

The Baltis are industrious people who have planted trees and built terraced fields on land available to them

The Skardu Valley is vast and breathtaking, with the Indus river flowing through it

Magical moments of sunset at the Skardu Valley. The rock in middle of the valley is where the historic Kharpocho Fort is located

The journey to Shigar Valley 

The Shigar Valley is vast and exotic

Raja of the former state of Shigar

A view of the Shigar Valley 

Shigar Valley is vast, beautiful and home to the historic Shigar Fort

Deeper in the Skardu Valley, towards Tolti, a border post village, close to Indian occupied Kashmir

مکمل تحریر >>

Monday, December 26, 2011

دیوسائی کی عکسی داستان


دیو سائی (جنات اور پریوں کے رہنے کی جگہ) گلگت بلتستان میں ضلع سکردو اور ضلع استور کے درمیان ایک بلند اور وسیع سطح مرتفع کا نام ہے۔  اس علاقے کی سطح سمندر سے اوسط بلندی 4144 میٹر (13،500 فٹ ) کے لگ بھگ ہے اور ویکیپیڈیا کے مطابق اس کا رقبہ تقریبا 3000 مربع کلومیٹر (1200 مربع میل) ہے۔

قدرتی حیات اور حسن سے مالا مال یہ خطہ پاکستان کے چند مشہور ترین نیشنل پارکس میں شامل ہے۔ گزشتہ سال سکردو سے براستہ صدپارہ استور کی طرف جاتے ہوئے دیو سائی سے گزرنے کا موقع ملا۔ اس دوران میں نے کچھ تصویریں بھی لی تھی جو اس بلاگ پوسٹ میں پیش کئے جارہے ہیں۔ 


مشہور و معروف شیو سار جھیل جسکی خوبصورتی کا مکمل اظہار اس تصویر سے ممکن نہیں ہے۔ شیو سار جھیل استور کی سمت دیو سائی کے کنارے پر واقع ہے۔ وخی زبان میں شیو کالے کو کہتے ہیں، جبکہ سار سر/چھت/بلندی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اس علاقے میں وخی بولنے والے موجود نہیں ہیں اسلئے غالب خیال یہی ہے کہ مقامی زبانوں، بلتی یا شینا، میں اس نام کا مطلب کچھ اور ہی ہوگا۔ 



دیو سائی سے اترکر کر ضلع استور کے زیریں علاقوں کی طرف جاتے ہوئے جا بجا چھوٹی چھوٹی بستیاں نظر آتی ہیں، جن میں مقامی افراد صرف گرمیوں کے موسم میں رہ سکتے ہیں۔ سردیوں میں یہ علاقے مکمل طور پر برف میں ڈھکے ہوتے ہیں۔ 

وادی استور قدرت میں موجود ہر نوع کے رنگوں کے حسین امتزاج سے مزئین ہیں۔ یہ تصویر دیکھ کر مجھے اس پینٹنگ کی یاد آتی ہے جو سکول کے بچے عموما پہاڑی علاقوں کا جغرافیہ اورحسن بیان کرنے کے لئے بناتے ہیں۔ 

ضلع استور کا شمار گلگت بلتستان کے ان اضلاع میں ہوتا ہے جہاں شرح خواندگی کافی اچھی ہو گئی ہے۔ جغرافیائی طور پر کشمیر کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں کے باسیوں کو تاریخی لحاظ سے تعلیم حاصل کرنے کے زیادہ مواقع ملے ہیں۔ تاہم، اس تصویر میں موجود ایک چھوٹے سے گاوں کا یہ حصہ روائتی پن چکی اور قرب و جوار کے مناظر کی وجہ سے پرانے وقتوں کا حسین اور قدرتی نمونہ پیش کرتا ہے۔


سکردو کی طرف سے دیوسائی تک پہنچنے کے لئے ایک عمودی چڑھائی عبور کرنی پڑتی ہے۔ اوپر پہنچتے پہنچتے چھوٹی گاڑی کا کھانس کھانس کر برا حال ہو جاتا ہے۔ اسی لئے بیچ میں سستاے اور دلکش قدرتی حسن کا مزہ لیتے ہوئے دھیرے دھیرے اوپر چڑھتے جائیں۔ 


یرقان زدہ شہری علاقوں کے دھند اور دھویں سے بیزار روح جب دیو سائی کی مست ہواوں ، نیلے پانیوں، چٹیل پہاڑوں کے درمیان آ پہنچتا ہے تو بے اختیار کھل جانے کا جی چاہتاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ میری پیدائش بھی ایک پہاڑی علاقے، وادی ہنزہ، میں ہوئی، لیکن گزشتہ دہائی سے نام نہاد تعلیم اور ملازمت کی وجہ سے اپنے علاقوں سے دور رہا ہوں۔ ہاں، دل میں ایک خواہش ضرور ہے کہ جب جان نکلے تو پہاڑوں کے دامن میں نکلے اور جسم اسی مٹی میں شامل ہو جائے جبکہ روح انہی جنتی فضاوں میں موجود رہے۔ 


دیوسائی میں روڈ کچے ہیں اور سردیوں کے موسم میں چلتے ہوئے دھول بہت اڑتی ہے، اسلئے ضروری ہے کہ سیاح اپنے گاڑیوں کے شیشے بند کر دے یا پھر منہ ڈھانپے رکھے تاکہ دھوپ کی تیزی اور گرد وغبار کے مضر اثرات سے محفوظ رہا جا سکے۔ 


اس تصویر کے ساتھ بڑا ظلم ہوا۔ ایک ماہر گرافِکس نے اس کو ’’مزید خوبصورت‘‘ بنانے کی کوشش میں بگاڑدیا اور ایسے بگاڑا کہ پھر بن نہیں پایا ۔ بہر حال، پل کی تعمیر سے پہلے اس بڑے دریا کو گاڑی سمیت عبور کرنا پڑتا تھا۔ اب چھوٹی گاڑیاں اس پر سے گزر سکتی ہیں۔ 


یہ پل صرف چھوٹی گاڑیوں کے لئے موزوں ہے۔ گرمیوں میں جب ندی نالوں میں برف پگھلنے کے باعث پانی کا بہاو بڑھ جاتا ہے تو عموما پانی اس پل کے اوپر سے بہنا شروع کردیتا ہے۔ 


کالا پانی کے نام سے مشہور یہ نسبتا چھوٹا سا دریا دوپہر کے بعد پانی کے بہاو میں اضافے کی وجہ سے بپھر جاتا ہے اور اس سے گزرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ دریائے کالا پانی پر پل تعمیر کرنے کی توفیق ابھی تک مقامی حکمرانوں کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔ سیاحوں کو چاہیے کہ دن کے بارہ بجے سے پہلے اس دریا کو کراس کر لے، تاکہ رات دیوسائی میں رہنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ یاد رہے کہ دیوسائی میں ہوٹل اور انسانی آبادیاں موجود نہیں ہیں، لیکن یہ نیشنل پارک بھورے ریچھ اور دوسرے جنگلی حیات کا مسکن ضرور ہے۔ :-) 

مکمل تحریر >>