Friday, January 27, 2023

کیرچ میں ایک رات – آخری قسط

دیو ہیکل پہاڑوں کے دامن میں خزاں رسیدہ گھاس اور درختوں پر چھائے گھُپ اندھیرے، اور پہاڑوں کی چوٹیوں سے دھیرے دھیرے اترتی چاند کی روشنی میں میں جو تاثیر ہے اس میں کیرچ کے اندر جلتے الاو کی حدت اور روشنی، لکڑی کے جلنے  اور برتنوں کے کھنکنے کی آوازیں، اور  فریاد صاحب کے وائلن کی جلترنگ شامل ہو  تو کُنڈا ہیل کی رات کا منظر کسی حد تک بیان ہوسکتا ہے۔  

کیرچ کے اندر چوہوں کی موجودگی کا سُن کر ہم سب چوکنے ہوگئے۔ پیٹ میں بھی چوہے دوڑ رہے تھے۔ لیکن کھانا پکنے میں بہت وقت لگ رہا تھا۔ 

استفسار پر معلوم ہوا کہ مُرغی کی بجائے خوش گائے (یاک) کا گوشت پکایا جارہا ہے۔ ایسی بلندی پر خوش گائے کا گوشت پکانے کی خواہش رکھنے والوں کو وطن کی ہواوں کا سلام  بہم پہنچاتے ہوے ہم بالآخر پیٹ پوجا کرنے میں کامیاب ہو ہی گئے، لیکن اس انداز میں کہ گوشت کو ربڑ کی طرح کھینچ کھینچ کر کھانا پڑا، اور ہاتھوں کے ساتھ ساتھ چہروں پر بھی چکنائی پھیل گئی۔  کُنڈا ہیل کی پریاں اگر یہ منظر دیکھ پاتی تو ضرور قے کرتے ہوے ہم سے دور بھاگ جاتیں۔ 

مگر، بھوک لگی ہوتو ایسی باتوں پر کون توجہ دیتا ہے؟ یہ تو فراغت اور عیاشی کی باتیں ہیں۔ 

کیرچ کے اندر بیٹھے ہوے یہ خیال آیا کہ ہمارے بزرگ یہاں کس طرح رہتے ہونگے؟ ان کے کپڑے کیسے ہونگے؟ ان کے اطعام کس قسم کے تھے؟ ان کے اذہان پر کن خیالات کا پہرا رہتا ہوگا؟

ہم  ڈبل انڈروئیر، بڑے بڑے کوٹ، م


وٹی جرابیں اور جوتے پہنے ہوے لوگوں کو ان کی حالات کا اندازہ لگانے میں دقت پیش آرہی تھی۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ نہ ان کے پاس ہمارے جیسے کپڑے تھے، نہ جوتے، اور نہ ہی ہمیں میسر دیگر آلات و اسباب۔ ہم ایک رات کے لئے ان کی طرح رہنے کی اداکاری تو کرسکتے تھے، مگر ان کی طرح رہ نہیں سکتے تھے۔ 

سلیپنگ بیگزکے اندر بیٹھنے کے باوجود بھی ہم ٹھنڈک محسوس کر رہے تھے۔ درمیان میں جلتے الاو کی حدت صرف جسم کے سامنے والوں حصوں کو گرم رکھنے کیلئے کافی تھی۔ پیچھے سے گلیشیائی ہوائیں کیرچ کی ٹوٹی پھوٹی  چوبی دیواروں کے درمیان موجود خلاوں سے گزرنے کے بعد تیر کی طرح ہڈیاں میں اُتر رہی تھیں۔ 

ان حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے خالص قدرتی مشروبات  (بشمول گرین ٹی) سے استفادہ کیا۔ اور کیا خوب کیا۔ 


چاند کی کرنیں پہاڑوں کی دیواروں سے دھیرے دھیرے نیچے اتر رہی تھیں۔ پوری وادی میں ایک ایسا سناٹا تھا کہ وحشت کا گمان ہوتا تھا۔

اس سکوتِ شب کے سحر کو توڑنے کے لئے علی سرور نے اپنی آواز کا جادو جگایا اور اس میں فریاد نے اپنے وائلن کی  آوازیں شامل کردیں۔ بس پھر  کیا تھا۔۔۔۔۔۔ 

طاوس و رباب اول۔۔۔۔ طاوس و رُباب آخر ۔۔۔۔۔۔کا فلسفہ شامل حال ہو تو بے خود اور بے حال ہونے کی راہ میں حائل رکاوٹیں جھٹ سے دور ہوجاتی ہیں۔

اس رات کا سحر تھا کہ جس نے بھی گایا، جو بھی گایا، روح تک اُتر گیا اور اس کی تاثیر آج بھی ہفتوں بعد  زندہ  ہے۔ 

دن بھر کی تھکن کے باوجود بھی نیند آنکھوں سے کوسوں دور رہی۔ چاندنی کیرچ کے چاروں اطراف سے چھن چھن کر اندر آنے لگی۔  

"جانے کب تک تیری تصویر نگاہوں میں رہی

ہوگئی رات تیرے عکس کو تکتے تکے 

میں نے پھر تیرے تصور کے کسی لمحے میں 

تیری تصویر پہ لب رکھ دئیے آہستہ سے " – پروین شاکر 

صبح ہائیکنگ پر وادی میں مزید اندر کی طرف جانے کا منصوبہ تھا۔ خواہش اور اُمید تھی کہ گلیشیر کے نزدیک پہنچ جائیں گے۔ چائے اور پٹوک (بروشسکی میں پی ٹی) کا روایتی ناشتہ کرنے کرنے کے بعد ہم نے زیادہ تر سامان کیرچ کے اندر رکھا اور خود ہائکنگ کے لئے روانہ ہوگئے۔ راستے میں جابجا خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہوے۔ تصویریں بنائیں اور چلتے رہے۔ ایک گلیشائی ندی، جس میں پانی بہت ہی کم تھا، پار کرنے کے بعد ہم دھیرے دھیرے ایک بار پھر ایک ڈھلوان پر چڑھنے لگے۔ 

ہماری شدید خواہش تھی کہ راستے میں ہمیں کوئی "جوندور" نظر آئے گا، یعنی کسی برفانی چیتے کا یا آئی بیکس  کا دیدار ہوگا۔ آثار بھی تھے۔ جا بجا ہمیں قدموں کے نشانات نظر آئے، لیکن پرندوں کے چند غولوں  کے علاوہ کسی ذی روح کا دیدار نصیب نہ ہوا۔ 

پہاڑی پر چڑھنا نسبتاً مشکل ثابت ہوا کیونکہ زمین برف سے اٹی ہوئی تھی۔ سورج کی تمازت سے برف پگھل جائے تو زمین  نرم اور گیلی ہوجاتی ہے جس پر قدم رکھنے سے پھسل کر گرنے کا خدشہ تھا۔ پھونک پھونک کر قدم رکھتے گئے۔ چڑھائی کے باعث پھیپھڑوں پر ایک بار پھر مصیبت آئی۔ سانسیں پھول گئیں، لیکن ہم نے رُکنے سے انکار کیا۔ 

پہاڑی کے اوپر ایک سنگِ میل سا نظر آرہا تھا۔ بعض دوستوں نے کہا کہ سنگِ میل نہیں بلکہ درخت ہے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ اس سنگِ میل (وخی میں انہیں ثمن کہتے ہیں)  تک ضرور پہنچیں گے۔ 

اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو

 میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا (منیر نیازی) 

اس ثمن تک پہنچنے کے بعد معلوم ہوا کہ گلیشر کے نزدیک پہنچنے کا خواب پورا نہیں ہوگا،کیونکہ آگے اچھا خاصا فاصلہ تھا۔ لیکن یہاں سے واپس جانے کا بھی من نہیں کر رہا تھا کیونکہ ابھی دن کے بارہ بھی نہیں بجے تھے، حالانکہ ہم نے کم از کم 4 گھنٹے کی ہائیکنگ کی تھی۔ تھوڑی دیر سستانے کے بعد تھکاوٹ کا اثر بھی کم ہوگیا تھا۔ اس لئے ہم نے مزید اوپر جانے کا فیصلہ کیا۔ فریاد صاحب نے مزید آگے جانے کی بجائے اس مقام پر بیٹھ کر نظارہ قدرت میں مصروف رہنے  کا ارادہ کیا۔

علی سرور، شاہد سلطان اور راقم برف پر گرتے پھسلتے گلیشیر کے ایک انتہائی زیریں حصے کے نزدیک پہنچ ہی گئے۔  چند تصویریں نکالنے کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا۔ ہمارا خیال تھا کہ واپسی آسان ہوگی۔ لیکن برف اور پھسلن کی وجہ سے گرتے پڑتے نیچے پہنچ گئے۔ 

شاہد سلطان نے تیزی سے آگے جانے اور ہم سست قدموں کی کیرچ آمد سے قبل لنچ تیار کرنے کا فیصلہ کیا اور جلد ہی چلتے چلتے ہماری نظروں کی حدود سے نکل گیا۔ علی سرور اور راقم بھی دھیرے دھیرے آگے بڑھتے گئے۔ لیکن فریاد صاحب پیچھے رہ گئے۔ انہیں پتھروں پر تحقیق کا شوق ہے، اس لئے ایک چھوٹی سی ہتھوڑی اور ایک عدسہ ہاتھ میں لئے چل رہا تھا، اور اپنیموبائل سے ولاگ بھی بنا رہا تھا۔ 

کیرچ تک پہنچنے کے آدھے گھنٹے بعد فریاد بھی نمودار ہوگئے۔ لنچ کھانے کیبعد ہم نے سامان سمیٹا۔ کیرچ پر ایک نظر ڈالی۔ بزرگوں کو یاد کیا۔ اور واپسی کی راہ لی۔ 

ویر خُن سے ہوتے ہوے ہم یرزریچ کی سمت جاتی ہوئی سڑک پر پہنچ گئے تو شام رات میں ڈھل چکی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ذیشان کار سمیت پہنچ گیا۔ آدھ گھنٹے کے بعد فریاد صاحب بھی بخیر و عافیت بالآخر پہنچ گیا۔ 

اس سفر کے اختتام پر ٹانگیں تھکی ہوئی تھیں مگر روح کی تازگی لوٹ آئی تھی۔ دُعا ہے کہ یہ تازگی برقرار رہے۔ 

امید اور ارادہ ہے کہ اگلی دفعہ پاکستان واپسی ہوئی تو وادی شمشال میں واقع پامیر کی جھیلوں اور سبزہ زادوں تک جائیں گے۔

نوٹ: یہ سفرنامہ ضلع ہنزہ (گلگت بلتستان) کے بالائی علاقے وادی گوجال میں واقع ایک چراگاہ سے متعلق ہے

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔