ویر خُن سے روانگی کے بعد نسبتاً آسان راستہ ملا۔ گھنے، قدیم، درختوں کے درمیان سے گزرتے ہوے ہم ارد گرد بکھرے ہزار رنگوں کے پتھروں کو دیکھ کر حیران ہو پریشان ہوتے رہے۔ کُنڈا ہیل کی وادی کی چوڑائی اتنی زیادہ نہیں ہے، لیکن لمبائی اچھی خاصی ہے۔ پورے راستے میں جا بجا جنگلات اور درخت موجود تو ہیں مگر آثار بتارہے ہیں کہ پہلے کی نسبت بہت کم درخت رہ گئے ہیں۔ درختوں کی کمی کی مختلف وجوہا ت ہیں۔ پہلی اور سب سے بڑی وجہ تو قدرتی آفات ہیں۔ پوری وادی میں جابجا سیلابی ریلوں کی گزرگاہیں ہیں۔ زمینی تودے گرنے کے باعث نہ صرف بہت سارے جنگلات دب گئے ہیں بلکہ کُنڈا ہیل کو سیراب کرنے والی نہر بھی کٹ چکی ہے۔ سیلابی ریلے اپنے ساتھ بہت سارے چھوٹے بڑے پتھر لے کر آتے ہیں۔ ان میں بہت قیمتی پتھر بھی موجود ہوسکتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر پتھر بس تباہی کا سامان بن جاتے ہیں۔
قدرتی آفات سے جو کچھ بچ گیا، اُسے انسانی آفات نے تباہ کردیا ہے۔ ماضی میں درختوں کی بے دریغ کٹائی ہوئی ہے اس علاقے میں۔ بتایا جاتا ہے کہ انگریز سامراج نے جب ہنزہ و نگر کو مقامی و علاقائی غداروں کی کمک سے زیر کرلیا تو شمالی سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے وادی مسگر میں قلندرچی کے مقام پر ایک قلعہ تعمیر کیا۔ اس قلعے کی تعمیر کے لئے ساری لکڑی کُنڈا ہیل سے براستہ چپورسن لے جایا گیا۔
اس کُنڈا ہیل سے ہی درخت کاٹ کر لکڑی بہت سارے گھروں کی تعمیر میں خرچ کیا گیا۔ قدرتی وسائل سے فائدہ اُٹھانا مقامی افراد کا حق ہے لیکن وسائل کی دیرپا بقا کے لئے تدبیر کی بھی اشد ضرورت ہے۔ پورے گلگت بلتستان میں بجلی اور گیس کی سہولت میسر نہیں ہے، جس کے باعث بہت دہائیوں تک درخت کاٹ کر جلانے کے لئے بھی استعمال کیا گیا۔ آجکل پابندیاں عائد ہیں۔ امید ہے کہ اب انسانی آفتوں پر قابو پایا جائے گا۔
انہی موضوعات پرخامہ فرسائی کرتے ہوے فریاد، سرور، شائد اور میں دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہے تھے۔ فریاد حسبِ معمول اپنی جیب سے عدسہ نکال کر پتھروں کو بغور دیکھ رہے تھے۔ اور وہ اپنی یوٹیوب چینل کے لئے غالباً ولاگز بھی بنارہے تھے۔ اس لئے ان کی رفتار ہمارے نسبت دھیمی تھی۔
ہم بھی تصویریں نکالتے ہوے آگے بڑھتے گئے۔ راستے میں پانی کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ سوست سے منرل واٹر کی چار بوتلوں میں پانی لینا، ہر شخص کے لئے ایک بوتل، اچھا فیصلہ تھا۔ زیادہ بوتل خریدنے کی صورت میں وزن کا بڑھنا لازمی امر تھا۔
بہر حال، دھیرے دھیرے چلتے ہوے ہم وادی میں آگے بڑھ رہے تھے۔ سیلابی ریلوں اور برفانی تودوں کے گرنے کے مقامات سے چلنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ چھوٹے بڑے پتھر ہر قدم پر موجود ہیں۔ پاوں کے تلوے دُکھنے لگتے ہیں۔
سورج کی کرنیں بھی ہمارے ساتھ ساتھ چلتے چلتے پہاڑوں کی چوٹیوں کی جانب گامزن تھیں۔ ہمارا ہدف تھا اندھیرے سے پہلے کُنڈا ہیل میں واقع کیرچ تک پہنچنا۔ اندھیرا چھا جانے کی صورت میں سرور کے پاس موجود چھوٹے سے ٹارچ کا سہارا تھا۔ لیکن ہم اس سہارے پر تکیہ کر کے ٹانگیں تڑوانے کے موڈ میں نہیں تھے۔ اس لئے رفتار بڑھانے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔
سورج کی روشنی کم ہورہی تھی، اور اسی رفتار سے سردی بھی بڑھ رہی تھی۔ دھیرے دھیرے ہم کُنڈا ہیل گلیشیر کے نزدیک بھی پہنچ رہے تھے۔ یخ بستہ ہوائیں گلیشیرز سے نکلتی ہیں اور ہڈیوںمیں پیوست ہوجاتی ہیں۔ ہم نے رات کُنڈا ہیل میں ہی گزارنی تھی۔
کیرچ تک پہنچتے پہنچے آخری چڑھائی ٹانگوں پر بہت بھاری ثابت ہوئی۔ تاہم خزان رسیدہ جنگل کے درمیان سے گزرتے ہوے آنکھوں کو فرحت بخشنے والے مناظر بھی بہت سارے تھے۔ منزل قریب ہو تو آخری مرحلے دشوار ہونے کے باوجود بھی آسان ہوجاتے ہیں۔
شکیل بدایونی نے کہا تھا کہ
مجھے آگیا یقین سا کہ یہی ہے میری منزل
سرِ راہ جب کسی نے مجھے دفعتاً پُکارا
کہا جاتا ہے کہ ان دلکش جنگلات اور قدیم درختوں، جن کے پتوں سے خوشبوویں نکلتی ہیں، کے درمیان پریاں رہتی ہیں۔ ہماری بھی خواہش تھی کہ کوئی پری سامنے آکر ہمارا نام پُکارے۔ مگر، شام کے اس پہر اس دشتِ تنہائی میں ہمارا نام پُکارنے والے پری یا پری زاد کی موجودگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔
پریوں سے آنکھیں چار کرنے کی خواہشِ نامراد کو دل میں دفن کرکے ہم چڑھائی چڑھتے رہے۔ چند منٹوں کے بعد ایک چھوٹے سے میدانی علاقے تک پہنچ گئے، جہاں لکڑی سے تعمیر شدہ خیمہ نُما پناہ گاہیں تھیں۔ انہی خیمہ نُما پناہگاہوں کو وخی میں کیرچ کہا جاتا ہے۔ اور انہیں میں سے ایک کے اندر ہم رات گزارنی تھی۔
سامان پھینکنے اور تھوڑی دیر سستانے کے بعد ذمہ داریوں کی تقسیم کی گئی۔ جلانے اور کھانا پکانے کیلئے سوکھی ٹہنیاں جمع کرنے کی ذمہ داری۔ کھانا پکانے کی ذمہ داری۔ برتن دھونے کی ذمہ داری۔ ایک عمودی ڈھلوان پر سے اترنے کے بعد اُس قدرتی چشمے سے بوتلوں اور دیگیچوں میں پانی لانے کی ذمہ داری، جس کے گرد زمین نرم و گداز ہے اور جس میں پاوں دھنسے جاتے ہیں۔
جون ایلیا نے کیا خوب کہا تھا کہ
یہ خراباتیانِ خرد باختہ
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے۔
ہمیں تو کام پر جانے کے لئے صبح تک انتظار کی مہلت بھی نہیں ملی۔
اس جہانِ لطافت میں بھی جسمِ کثیف کی ضروریات سے نگاہیں نہیں پھیری جاسکتی ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔