Friday, December 02, 2022

کیرچ میں ایک رات - دوسری قسط

 


سوست سے شمال مغرب کی جانب وادی چپورسن واقع ہے، جس کی سرحدیں آگے جا کر وخان (افغانستان) سے ملتی ہیں۔ لیکن ہمیں چپورسن وادی میں بہت آگے نہیں جانا تھا۔ دریا کنارے پُر خطر سڑک پر جاتے ہوے کئی بار خوف سے سانسیں رُک گئیں۔ اوپر پہاڑ، نیچے دریا اور سڑک کی حالت ایسی کہ ہر گام پر موت منہ کھولے انتطار میں بیٹھی ہے۔

بائیں ہاتھ پر تراخان نامی چراگاہ واقع ہے۔ چھوٹی سے جگہ ہے، دریائے چپورسن کے اُس پار۔ تھوڑی دیر آگے اک چھوٹے سے پُل سے گزرنے کے بعد ہمارا رُخ بائیں جانب ہوا، کیونکہ ہمیں آستانہ پنجہ شاہ کے قریب سے گزرتے ہوے اوپر جانا تھا۔ پنجہ شاہ کے بارے میں ایک بلاگ پہلے ہی لکھ چکا ہوں۔ تھوڑی دیر آستان کے ارد گرد تصویر کشی و طواف میں گزارنے کے بعد ہم آگے روانہ ہوگئے۔

یرزریچ نامی گاوں سے کچھ فاصلے پر گاڑی رُک گئی۔ اب ہمیں چار پہیوں سے دو ٹانگوں پر منتقل ہونا تھا۔ جہاں گاڑی رُکی اس کے نزدیک ہی کچھ قبریں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم زمانے میں یہاں قرغیز رہائش پزیر تھے، یا اس علاقے میں بطور خانہ بدوش آتے جاتے رہتے تھے ۔ ، قبریں ان کی ہیں۔ واللہ اعلم! بظاہر خزانوں کے متلاشیوں نے بعض قبروں کو کھودنے کی بھی کوشش کی ہے۔ ان قبروں میں مدفون افراد کی باقیات ہمارے علاقے کی تاریخ کے امین ہیں ۔ ڈی این اے ٹیسٹنگ سے ان کے بارے میں بہت ساری معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ چند روز قبل ایک موقر میگزین میں پڑھا کہ آٹھ ہزار سال پرانی ہڈی سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر اُس قدیم خاتون کی ہو بہو شکل بھی آرٹفیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) کی مدد سے تیار کی گئی ہے۔ یہ ہڈیاں ہمارے ماضی کی امین ہیں۔ انہیں بیکار سمجھنے کی غلطی سے گریز کرنی چاہیے۔ میر تقی میر نے بھی تو ہمیں بہت پہلے بتایا تھا کہ

کل پاوں ایک کاسہ سر پر جو آگیا

یکسر و استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ، بے خبر

میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُرغرور تھا

اس مقام سے آگے ہم نے ذیشان کا شکریہ ادا کیا اور انہوں نے واپسی کی راہ لی۔ ہم سامان پیٹھ پر لاد کر ایک عمودی چڑھائی چڑھنے لگے۔ کچھ ہی قدموں میں سانسیں پھول گئیں تو خیال سینیما کے داروغہ نے کانوں میں سرگوشی کی، "کیا سوچ کر کوہ نوردی کرنے آئے تھے؟ "

مجھے اندازہ تھا کہ نیویارک میں پانچ سال گزارنے کے بعد پہاڑوں پر چڑھنا آسان بلکل بھی نہیں ہوگا۔ یہ الگ بات ہے کہ جس پر ہم چڑھ رہے تھے اُسے پہاڑ کہنا پہاڑوں کی توہین تصور کی جائے گی!

کورونا میں مبتلا ہونے اور ایک ماہ بستر پر پڑے رہنے کے بعد پھیپھڑوں کی صحت کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہوا تھا۔ خدشہ پیدا ہوا کہ شائد پھیپھڑے ساتھ نہیں دیں گے ! ٹانگیں بھی احتجاجاً رُک رُک کر چل رہی تھیں۔ لیکن میں نے دل میں ٹھان لیا تھا کہ کچھ بھی ہو کُنڈ ا ہیل پہنچ ہی جاوں گا!

ارد گرد نظر دوڑایا تو ہمسفر کڑیل جوانوں کی حالت بھی مجھ سے زیادہ مختلف نہیں تھی۔ سب کی سانسیں پھولی ہوئی تھیں۔ اُن کی حالت دیکھی تو حوصلہ بڑھا! آہستہ آہستہ ، یعنی ہر تین قدم کے بعد سانس لینے کے لئے رُکنے کے بعد، اوپر چڑھتے رہے۔ تصویریں لیں۔ بیٹھ کر عجیب و غریب ہیت و رنگ والے پہاڑوں پر غور کیا۔ حیران ہوے۔ وحشت بھی ہوئی۔ اتنے چھوٹے سے تو ہیں ہم انسان۔ ہماری کیا حیثیت اور مجال ؟ یہ پہاڑ اور پتھر اربوں سالوں سے اسی علاقے میں ہیں۔ ہم جیسے آتے جاتے رہتے ہیں۔ مشت بھر تو زندگی ہے ہماری۔ عاجز ی سیکھنا چاہتے ہو تو قدرت کو دیکھو! حیرت و وحشت سے عاجزی آ ہی جائے گی!

دائیں طرف پہاڑی پر ایک چوکی سی بنی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ چوکیاں قرغیز حملہ آوروں پر نظر رکھنے کے لئے دفاعی اعتبار سے بنائے گئے تھے۔ ہم نے دور سے نظارے پر اکتفا کر لیا کیونکہ دن کے ایک بجے تھے اور ہمیں اندھیرا چھانے سے پہلے کُنڈا ہیل پہنچنا تھا۔



جو لوگ پہاڑوں پر جاتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ جڑی بوٹیوں سے ایسی دلکش خوشبوویں آتی ہیں کہ روح شاداب ہوجاتا ہے۔ ہم بھی رنگوں اور خوشبووں کی اس دلکش مگر بنجر وادی سے پھولی سانوں اور دُکھتی ٹانگوں کے ساتھ چلتے چلتے پہاڑی کے اوپر پہنچ ہی گئے۔

یاروں نے خوشخبری سُنائی کہ "منزل مقصود آئی ہے قریب ۔۔۔۔ ساتھیوں آگے چلو بس چند گام"۔ یہاں منزل سے مراد ویر خُن نامی جگہ ہے۔ ویر خُن وخی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے "اکیلا گھر، یا خانہ تنہا"۔ یہاں رُک کر ہمیں سوست بازار سے خریدے ہوے پلاو پر ہاتھ صاف کرنا تھا۔

ویر خُن میں کچھ چرواہے موجود ہیں ۔بھیڑ بکریوں کی بہتات ہے۔ بہت سارے یاک (خوش گائے)بھی نظر آئے۔ لیکن کسی انسان کا نطارہ نہیں ہوا۔ وسیع و عریض وادی ہے۔ کسی زمانے میں، جب پانی یہاں تک پہنچتا تھا، کاشتکاری بھی ہوتی تھی۔ کھیتیاں بنی ہوئی ہیں، لیکن اب کھیتیوں کا انحصار برف اور بارشوں پر ہے ، اس لئے گھاس ہی اُگ پاتی ہے۔

ایک نسبتاً اونچے ٹیلے پر بیٹھ کر پلاو پر ہاتھ صاف کیا ۔ نظاروں کا لطف اُٹھایا۔ تھوڑی دیر سستانے کے بعد سفر کا دوبارہ آغاز کیا۔

- جاری ہے

 

 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔