میں آج
اپنے بارے میں آپ کو کچھ بتانے جارہا ہوں۔ آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ میں صدیوں سے آپ کی برادری کا حصہ ہوں۔ آپ کے
منفرد اور پیاری زبانوں کی طرح میں بھی
اپنے قوم کی ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ اور تمدن کا اجتماعی حافظہ اور
مظہر ہوں۔
مجھے
"وخی" اس لئے کہتے ہیں کہ میرا جنم وخان میں ہوا، جو ڈیڑھ سو سال پہلے تک ایک چھوٹی سی ریاست تھی اور اب
تاجکستان اور افغانستان کے درمیان منقسم ایک پہاڑی علاقہ ہے۔
مجھ میں دریائے
آمو کی روانی اور چاشنی بھی ہے اور سطح مرتفع پامیر کے سبزازاروں میں کھلنے والے
پھولوں کی مہک بھی۔ میں جدید اور زندہ بھی ہوں اور قدیم بھی کیونکہ میں اپنے وجود
میں انتہائی قدیم الفاظ اور لہجے بھی پوشیدہ رکھتا ہوں۔
میں کب پیدا
ہوا، یا کیسے پیدا ہو، اس کے بارے میں ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ یہ راز میں فی الحال
اپنے سینے میں مدفون رکھنا چاہتا ہوں۔ لیکن یہ سب تسلیم کرتے ہیں کہ میں ہزاروں
سالوں سے وجود رکھتا ہوں۔
میرا حسب و
نسب یہ ہے کہ میں زبانوں کے انڈویورپین قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے خاندان میں
انڈوایرانین (ہند ایرانی) اور انڈو آرین (ہندی آریائی) زبانیں شامل ہیں۔ میرے نزدیک
ترین کزنز میں جنوبی ساکا، تمشوقیز اور خُتانی ساکا جیسی ناپید زبانیں شامل ہیں۔ پشتو کے ساتھ بھی ذرا دور کی رشتہ داری ہے۔
یوں تو
مجھے ایرانی لسانی خاندان کی مشرقی شاخ میں شامل کیا جاتا ہے، لیکن میرے کچھ اوصاف
مشرقی ایرانی زبانوں کی "پامیری" خانوادے میں شامل زبانوں سے مختلف ہیں۔
اسلئے بعض ماہرین مجھے فی الحال حتمی طور پر کسی مخصوص لسانی خانے میں ڈالنے سے گریزاں
ہیں۔ لیکن، بہرحال، یہ ایک علمی بحث ہے جو وقت اور تحقیق کے ساتھ اپنے منطقی انجام
تک پہنچے گا۔
میرے جنم
بھومی (جائے پیدائش) پر جب کابل اور قندہار کے حکمرانوں نے برطانوی سامراج کی ایما پر حملہ کر کے قبضہ کیا
یا تو کمزور حکمران اپنی ریاست چھوڑ کر تتر بتر ہوگئے۔ اس طرح میرے بہت سارے بولنے
والے آپ کے مزید قریب آکر رہنے لگے۔ اب میرے بولنے والے افغانستان، تاجکستان، چینی
ترکستان(سینکیانگ) اور روس کے کونے کھدروں
میں مقیم ہیں، اور صدیوں سے اپنی محنت اور قابلیت کے ذریعے ان بے آب و گیاہ بیابانوں
کو آباد کرنے میں مصروف ہیں۔ میرے بہت سارے بولنے والے سقوط وخان سے پہلے بھی آپ
کے علاقوں میں آباد تھے، تو آپ یہ بغیر جھجھک کے کہہ سکتے ہیں کہ میں آپ کے علاقے
کی تاریخ، تمدن اور تہذیب کا حصہ ہوں۔
بعض لوگ
مجھے ایک "چھوٹی زبان" سمجھتے ہیں، کیونکہ میرے بولنے والوں کی تعداد کم
ہے۔ ایسے لوگوں کو میری گہرائی اور گیرائی کا اندازہ نہیں ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ
میرے بارے میں مزید سیکھنے کی کوشش کریں گے، تاکہ ان کے مغالطے دور ہوں۔ بس اتنا کہوں کہ میں کسی بھی لحاظ سے کسی دوسری
زبان سے کمتر نہیں ہوں۔
ہاں، یہ الگ بات ہے کہ میرے بولنے والے اپنی کم تعداد کی
وجہ سے سیاسی قوت نہیں رکھتے ہیں جس کے اثرات مجھ پر وقتاً فوقتاً مرتب ہوتے رہتے
ہیں۔ جب معاشرے میں "جس کی لاٹھی، اُس کی بھینس" کی پالیسی رائج ہو تو ایسے
ہی ہوتا ہے۔
ویسے آپس کی بات ہے کہ
اگر معاشرہ انصاف اور عدل کی بنیادوں پر منظم ہوتا اور فیصلہ سازوں کی نیتیں صاف ہوتی تو میرے
بولنے والوں کی کم عددی سے مجھ پر زیادہ فرق نہیں پڑتا، لیکن آپ اور ہم سب جانتے ہیں
کہ ہمارے معاشروں میں انصاف اور عدل،
برابری، کی صرف باتیں ہوتی ہیں۔
خیر۔ بعض لوگ مجھے حقیر سمجھ کر نظر انداز بھی کرتے
ہیں، لیکن میں بھی بہت سخت جان ہوں۔ کسمپرسی کے باوجود ہزاروں سالوں سے اپنا وجود برقرار رکھا ہے، اور مجھے یقین ہے کہ
میرے بولنے والے اور زبانوں کی اہمیت سمجھنے والے دیگر ہزاروں افراد مجھے مرنے نہیں دیں گے۔
میں گلگت
بلتستان کے ان جوانوں سے، جو وخی زبان سے واقف نہیں ہیں، مخاطب ہوں کیونکہ وہ کل
کے حکمران اور فیصلہ ساز بنیں گے۔ مجھے امید ہے کہ آپ مجھے بھی اپنے علاقے کی زبان
تسلیم کریں گے اور میری ترقی اور بقا اور حق نمائندگی کے لئے آواز اٹھائیں گے۔
میرا نام
وخی ہے۔ اور میرے بولنے والے پاکستان کے تین اضلاع، ہنزہ، غذر اور چترال میںآباد ہیں۔
آپ کا اپنا
خِھیک زِک
- المعروف "وخی"
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔