Sunday, August 01, 2021

خیال سینیما کا داروغہ اور سن سیٹ پارک



شام کی آخری پہر ہے۔ دور بحراوقیانوس کے اوپر دھیرے دھیرے، غیر محسوس طریقے سے، سورج ڈوب رہا ہے۔ ہلکی ہلکی سی ہوا چل رہی ہے۔ لیکن اس ہوا میں وہ خنکی نہیں ہے جو "یازیوپک" کے سامنے پُل پر کھڑے ہو کر محسوس کی جاسکتی ہے۔ وہ گلیشیائی ہوا ہڈیوں میں اُترتی ہے تو فرحت کا احساس اُمڈ آتا ہے۔ بحراوقیانوس سے آنے والی اس ہوا کی خنکی میں ایک نرمی ہے جو من کے تار چھیڑ کر گزر جاتی ہے۔

 اسی لئے بہت سارے جوڑے ٹھنڈی گھاس پر، یا گھاس پر دریاں بچھا کر، بیٹھے غروب آفتاب کا منظر انہماک سے دیکھ رہے ہیں۔ میں بھی یہی پر ہوں، مگر میں اس پہر اکیلا ہوں۔ یوں تو کسی کو بھی نہیں جانتا، مگر بظاہر سب سے واقف ہوں۔

تین نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، دو گورے اور ایک مشرقی ایشیائی، میرے قریب ہی بیٹھے کھلکھلا رہے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں بئیر کی بوتلیں ہیں، اور یہ ایک دوسرے سے جام ٹکرا کر اس منظر کو اپنے حساب سے یادگار بنارہےہیں۔

تھوڑے فاصلے پر مشرق وسطی سے تعلق رکھنے والا ایک خاندان ہے۔ چار عورتیں اور چند بچے اور بچیاں۔ ان کے لباس ارد گرد موجود افراد سے مختلف ہے، اور ہوا کے دوش پر ان کی آوازیں بھی وقتاً فوقتاً تیرتی ہوئی آتی ہیں۔ عربی میں ایک دوسرے سے گفتگو کر رہے ہیں۔

ایک طرف دو گوری عورتیں بیٹھی ہیں۔ ان کے گرد دو شرارتی بچے ہنستے کھیلتے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔

کافی افراد "سن سیٹ پارک" میں موجود ہیں شام کے اس پہر۔ ہفتے کی شام ہے۔ اتوار کو چھٹی ہوگی۔ اس لئے خاندان، دوست اور احباب ایک دوسرے کے ساتھ وقت بتا رہے۔ لاطینی امریکی نسل سے تعلق رکھنے والوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔ چینی نژاد افراد کا ایک بڑا سا گروہ موسیقی پر رقص نما ورزش میں مصروف ہے۔ آرتھوڈوکس یہودی افراد سے تعلق رکھنے والے، جنہیں ان کی منفرد لباس سے بآسانی پہچانا جاسکتا ہے، بھی بیٹھے نظر آرہے ہیں۔

بظاہر یہ سن سیٹ پارک دنیا کا ایک مائیکروکوزم ہے، یعنی ایک ایسا عالم صغیر  جس میں دنیا کی ساری ثقافتیں، صلاحتییں اور خاصیتیں موجود ہیں۔

دل چاہتا ہے کہ پارک میں گھوم کر مزید ثقافتوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو پہچانوں۔ ان سے بات نہ بھی ہو انہیں دیکھ کر خود کو یہ تسلی دلادوں کہ اس ثقافتی، لسانی، مذہبی، تہذیبی تغیر سے بھر پور دنیا میں بھی امن اور سکون کی ساعتیں ساتھ بیٹھ کر بتانا ممکن ہے۔

لیکن غروب آفتاب کی ساعت ہے۔ فلسفہ اور تحقیق، منطق، عقل کی دنیا سے تھوڑی دیر کے لئے دور جاکر بے خودی اور بے مقصدی کا احساس پانا چاہتا ہوں۔

طلب ہے فراغت کے کسی لمحے کی جو ہستی اور نیستی کےجھمیلوں سےدور لے جائے۔ بے خود کر دے۔ 

سورج غروب ہورہا ہے۔ نظریں بحراوقیانوس پر مرکوز ہیں۔ پارک میں موسیقی اور گفتگو کی صدائیں ہیں۔ ذہن کسی خیال پر مرکوز ہوتو من ایک خانقاہ یا زاویہ کی شکل اختیار کرجاتا ہے، کہ عبادت ارتکاز فکر ہی کا تو نام ہے!

ایسے میں ایک آواز دل میں بھی اُبھرتی ہے۔ یہ آواز خودکلامی کی ہے۔ تنہائی اور خودکلامی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ لیکن یہ کلام بھی دنیائے خیال میں چل رہا ہے، اس لئے آوزیں روح میں گونجتی ہیں۔

یہ جو میرے ارد گرد بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے، خوش و خرم، بظاہر مطمعن افراد موجود ہیں، ان پر مجھے رشک آتا ہے کیونکہ یہ زندگی کا مزا لے رہے ہیں، انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کہ ان کے گرد موجود افراد کونسی زبان بول رہے ہیں، کس مذہب یا فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، کس ملک سے آئے ہیں، کونسے کپڑے پہنے ہیں، یا نہیں پہنے ہیں، اور انہوں نے اس دنیا کو چھوڑ کر کہاں جانا ہے۔

ساڑھے تین سال ہوے ہیں مجھے اس ملک میں۔ کسی نے آج تک میرا مذہب نہیں پوچھا۔ کسی نے فرقہ نہیں پوچھا۔ اپارٹمنٹ بلڈنگ سے نکلتے ہوے مگر مجھے دیکھ کر "ہیلو"، "ہائی"، "ہاو از دی ویدر آوٹ سائڈ"، "ہاو آر یو ڈوئنگ ٹودے"، "ہیو اے نائس ڈے" ضرور کہتے ہیں، یہ جانے بغیرکہ میرا عقیدہ کیا ہے، یا میری ثقافت کیا ہے۔ انہیں میرے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنے کے لئے، مجھے برابر کا انسان قبول کرنے کے لئے، بظاہر میرے عقیدے، فرقے، مذہب یا ثقافت کے بارے میں معلوم ہونا ضروری نہیں ہے۔

لیکن ان بظاہر اچھے لوگوں کو کیا معلوم کہ یہ سارے جہنم میں جائیں گے۔

"کنفرم جنتی" تو ہم ہیں۔ ا

"ہم"، کا کیا مطلب ہے، خیال سینیما کے داروغے نے اچانک وادی فکر میں سوال داغا۔

"ہم مطلب؟"میں نے تھوڑی دیر کے بعد جواب دیا۔ "ہم جو اپنے فرقے کے سوا کسی کو درست نہیں سمجھتے اور ہم جو دوسرے انسانوں کو برابر کا انسان نہیں سمجھتے"، میں نے کہا۔

"لیکن آپ کو یہ کیسے معلوم ہے کہ آپ کنفرم جنتی ہیں؟"، خیال سینیما کے داروغے نے پوچھا۔

"کیونکہ ہمارے فرقے کی کتابوں میں یہی لکھا ہے"، میں نے فوراً سے جواب دیا۔

خیال سینیما کا داروغہ خاموش ہوگیا۔

- آوارہ خیال

نوٹ: یازیوپک ایک گلیشیائی نالے کا نام ہے جو وادی گوجال میں حسینی اور غلکن گاوں کے درمیان شاہراہ قراقرم کے بہت نزدیک واقع ہے۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔