قراقرم ہائے وے سے اُتر کر گھر کی طرف جاتے ہوے ایک چھوٹی سی گلی نُما سڑک تھی، جس کی تعمیر کا واحد مقصد ٹریکٹر کو کھیتوں تک پہنچانا تھا۔ اُن دنوں ذاتی گاڑیاں اور موٹر سائیکلز رکھنے کی سکت نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہ پتلی سڑک ایک مختصر سی ڈھلوان سے نیچے اترتی تھی۔ ڈھلوان کے اوپری سرے پر سکول سے واپسی کے بعد پہنچ کر میری یہ خواہش جاگ جاتی تھی کہ تیزی سے بھاگتے ہوے، بغیر رُکے، گھر کے اندر داخل ہوجاوں۔
راستے میں ایک چھوٹی سی نہر بہتی تھی، نہر کے قریب پہنچ کر رفتار خودکار انداز میں کم ہوجاتی تھی، کیونکہ نہر کے اوپر سے ٹریکٹر گزارنے کے لئے چھوٹے بڑے پتھر رکھے گئے تھے، جو وقتاً فوقتاً اپنی جگہے سے ہل جاتے تھے۔ رفتار کم نہ کرنے کا مطلب تھا "ٹریفک حادثہ"، یعنی کسی نوکیلی پتھر سے ٹکرا کر منہ کے بل گر جانا، یا پھر پھسل کر نہر میں گرجانا۔ ٹانگوں پر ایسے حادثات کے نشانات بابجا موجود تھے۔ کبھی کبھار ہاتھ اور بازو، حتی کی چہرے، کی جلد بھی چھل جاتی تھی ان حادثات کے باوجود بھی مگر "ٹربوتہ سپیڈ پرواہ نشتہ"، (پشتو جملہ جس کا مطلب غالباً "ٹربو کو سپیڈ کی پرواہ نہیں ہے"، جو میں نے چترال کے وادی لاسپور میں ایک ٹرک کے پیچھے بہت سال پہلے دیکھا تھا) کے مصداق ہم اپنی رفتار کم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔
"تیزابی سوچ"، بشکریہ سارہ شکیل |
خطرات کا زیادہ ادراک نہ تھا۔ معصومیت تھی۔ کھلنڈرا پن تھا۔ اسلئے گرنے پڑنے سے محض آنسو بہتے تھے، ہمت کم نہ ہوتی تھی۔ اب ہم سنجیدہ اور سمجھدار ہوگئے ہیں، آنسو نہ بھی بہے تو ہمت کے بازووں میں لغزش آہی جاتی ہے ۔۔۔۔
گلی کے دائیں طرف ایک کیاری میں پھلوں کے درخت آج بھی ہیں،جن پر ناشپاتی، سیب، چیری اور دیگر میوہ جات لگے ہیں۔ یہاں پہنچ کر ایک 'روایت' یہ بھی تھی کہ اچھل کر گلی کی طرف جھکی ہوئی شاخوں کو چھوا جائے۔ شاخوں کو چھونے سے پتے گر جاتے تھے۔ کبھی کبھار کوئی میوہ بھی ہاتھ آہی جاتا تھا۔ یہ رسم بھی میکانکی انداز میں ادا ہوجاتا تھا۔
گھر کے دروازے پر پہنچ پر تھوڑی دیر کے لئے رُک جاتا تھا، تاکہ اندر سے آنے والی آوازوں سے اندازہ لگایا جاسکے کہ کوئی مہمان یا گھر کا کوئی بڑا (مرد) تو اندر موجود نہیں۔ مرد اس لئے کہ عورتوں سے ڈرنے کا کوئی خاص رواج نہیں تھا۔ کوئی نامانوس آواز کانوں سے ٹکراتی، یا کسی بڑے کی آواز آتی، تو فوراً مُڑ کر قریب ہی بہنے والے ایک نہر تک جاتا تھا، تاکہ اس کے کنارے بیٹھ کر اپنا پاوں دھویا جاسکے۔ گلیشیر سے نکلنے کے بعد دسویں کلو میٹرز کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود بھی مٹیالا، گدلا، گلیشیائی پانی یخ بستہ ہوتا تھا۔ پاوں اندر ڈالتے ہی جھرجھری سی آجاتی تھی۔
ان دنوں پلاسٹک کے جوتے عام تھے۔ جرابیں پہننے کا رواج بہت کم، بلکہ نہ ہونے کے برابر ، تھا۔ بغیر جرابوں کے ہی جوتے پہن کر سکول جاتے تھے، جس کے باعث پاوں پسینے کی وجہ سے غلیظ اور بدبودار ہوجاتا تھا، بالخصوص گرمیوں کے زمانے میں ۔ اور اگر کسی دن پلاسٹک کے جوتے، جنہیں ہم اپنی زبان میں نہ جانے کیوں "کالوش" کہتے تھے، پہنا ہوتو پھر پاوں کی حالت عجیب سی ہوجاتی تھی۔ نہ صرف پاوں کی سڑانڈ بڑھ جاتی تھی، بلکہ چلتے پھرتے ہوے عجیب و غریب "فحش" سی آوازیں بھی آتی تھیں!
ہم گورنمنٹ بوائز ہائی سکول میں پڑھنے والوں کی اہمیت کچھ خاص نہ تھی، اس لئے ہم اپنے بناو سنگھار پر بھی زیادہ توجہ نہیں دیتے تھے۔ گاوں میں مقامی افراد کی خواہش اور باہمی اتحاد و ہمت کے طفیل ایک انگریزی میڈیم سکول بن چکا تھا اور چھوٹی عمر کے بچے اُس سکول میں پڑھتے تھے۔ ان کی یونیفارم ہم سے بہتر تھی۔ یعنی ہم کالی شلوارقمیض پہنتے تھے، جبکہ وہ پینٹ شرٹ اور ٹائی لگا کر سکول جاتے تھے۔ ان کی صفائی کا بھی گھروں میں خاص خیال رکھا جاتا تھا، کیونکہ وہ انگریزی پڑھتے تھے! یوں سمجھ لیجئے کہ ایک طبقاتی نظام تھا!
ہم بھی کسی ٹاٹ سکول میں نہیں پڑھتے تھے، بلکہ ہمارے سکول کی عمارت بہت بڑی، جدید اور بہتر تھی، لیکن معاشرتی معیار کی کسوٹی پر ہمارا نمبر صفر کے آس پاس تھا، کیونکہ ہم اردو میڈیم سکول کے طلبہ تھے۔
میرے اپنے چھوٹے بھائی بہن سارے انگریزی سکول جاتے تھے۔ چچازاد بڑا بھائی گلگت میں الازہر سکول کا طالب علم تھا۔ میں واحد اردو سکول جانے والا تھا اپنے گھر میں۔ میری اور میرے بہت سارے ہم عمروں کی اس سکول میں داخلہ نہ لینے کی وجہ محض یہ تھی کہ جب انگریزی سکول تعمیر ہوا، ہم پرائمری پاس کر چکے تھے، جبکہ سکول کی اولین/ شروعاتی جماعتیں دوسری، یا غالباً تیسرے درجے تک تھیں۔
انگریزی سکول کی تعمیر میں ہم سب نے بڑھ چڑھ کر، اپنی اوقات اور بساط کے مطابق، کام کیا تھا۔ کیونکہ یہ درسگاہ گاوں کی امیدوں اور امنگوں کا مظہر تھا۔ اور وقت نے اس جدید درسگاہ کی افادیت ثابت بھی کردی۔
خیر، پاوں دھونےکے بعد گھر کے اندر داخل ہوجاتے تھے۔ بستہ ، جو بسا اوقات کسی پرانے کپڑے کو ری سائیکل کر کے بنایا جاتاتھا، اور جس میں چند پھٹی پُرانی کاپیاں اور مُڑی تُڑی کباتیں بے ترتیبی سے زلف یار کی طرح نہیں، بلکہ مست گدھے کے کیچڑ سے لتھڑے بال کی طرح آپس میں خلط ملط ہوتی تھیں، سلام دُعا کے بعد ایک طرف پھینک کر چکیش (وخی زبان میں)، جسے آپ گھر کا کچن بھی کہہ سکتے ہیں، کا رُخ کرتے تھے۔ اگر گھر میں کوئی موجود نہ ہو تو خود ہی جاکر برتنوں کے ڈھکن اُٹھا کر دیکھا کرتے تھے کہ کیا چیز تیار ہے، یا دوسرے الفاظ میں کس چیز پر ہاتھ صاف کیا جاسکتا ہے۔
اگر کوئی موجود ہو، تو بھی ڈھکنیں اُٹھا کر تحقیق کرنا اوراس کے بعد بہ آواز بلند یا کھسرپھسر کے انداز میں بڑی ماں، اماں، دادی سے فرمائشیں کرنا، زیادہ مقدار میں مانگنا، روایات میں شامل تھا۔
جس دن چھموس (خوبانی کا جوس ) ملتی، ہمارے تو وارے نیارے ہوجاتے تھے ۔ یہ الگ بات ہے کہ دو یا تین گلاس چھموس پینے کے بعد پیٹ میں گیس بھر جاتا تھا، جس کے بعد قریب بیٹھنے والوں کو بوجوہ منہ پر ہاتھ رکھ کا ، یا کپڑے سے منہ ڈھانپ کر گزارہ کرنا تھا، یا پھر ہمیں ڈانٹ ڈپٹ کر دور بھگاتے تھے۔
لسی بھی میری پسندیدہ غزاوں میں شامل تھی۔ خالص نمکین/تُرش لسی کا مزہ ہی کچھ اور ہوتاہے۔ اور اس میں گھر کی خوشبو اور ماں کی مامتا کا رنگ شامل ہو تو پھر اس کی بات ہی الگ ہوتی ہے۔
اب یہاں نیویارک میں لسی کے نام پرایک مشروب ملتی ہے، لیکن اس میں لسییت کوٹ کوٹ کر تو کجا، سرسری انداز میں بھی بھری نہیں ہوتی ہے۔
آپ کہیں گے کہ یہ مضمون لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
بندہ اکیلا ہوتو خیالات آوارہ ہوجاتے ہیں۔ بچپن اور لڑکپن کی ایسی چیزیں بھی یاد آجاتی ہیں جنہیں آپ ماضی میں معمول سمجھ رہے ہوتے ہیں!
تنہائی میں جب آپ کسی کو یادکرتے ہیں، اور دل سے یاد کرتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ یکدم آپ کے پاس پہنچ گیا ہو۔۔۔۔۔۔
یہاں میں لسی یا چھموس کا سوچتا ہوں تو اس اپنائیت کے ساتھ کہ منہ میں چھموس یا لسی کا ذائقہ اصلاً آجاتا ہے۔ کچھ لمحوں کے لئے ہی سہی، یہ یادیں انسان کو ماضی کی طرف لیجاتی ہیں، اور یہ یاد دلاتی ہیں کہ کبھی زندگی آسان تھی۔ پیچیدگیاں کم تھیں۔ محبتیں تھیں۔ خلوص تھا۔ اب ہر چیز کی کمی ہے۔ یا پھر یوں کہیے کہ جواہرکی کمی ہے، اور ظواہر کی بہتات۔
یہ ایک انوکھی قسم کی غربت ہے۔
نہیں معلوم گاوں میں لسی کا ذائقہ وہی ہے یا پھر بدل گیا ہے؟ نہیں معلوم اب چھموس اُسی قدرتی، نامیاتی، انداز میں بنائی جاتی ہے، یا پھر گندھک اور دیگر غیر نامیاتی مرکبات شامل ہوتی ہیں۔
خیر، اگر چھموس اور لسی میں گندھک شامل ہوبھی جائے تو مداوا ہوسکتاہے۔ اُس گندھکی تیزاب کا کیا کیا جائے تو خیال کے نام پر زہرِ زرد کی طرح سماج کے بدن میں سرایت کرنے کے بعد نفرت پھیلانے میں مصروف ہے؟
اس تیزابی بدبودار نفرت کو چھموس اور لسی کی طرح پھینکا بھی نہیں جاسکتا، ذائقہ پسند نہ آنے پر!
- آوارہ خیال
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔