چند روز قبل وخی زبان بولنے والے معزز اور متحرک افراد نے نشاندہی کی ہے کہ احساس پروگرام کے رجسٹریشن فارم میں گلگت بلتستان کی دیگر زبانیں موجود ہیں، لیکن وخی کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس فارم میں شامل نہیں کیا گیاہے، جس کے باعث وخی زبان بولنے والوں کو اپنی زبان کی جگہ دیگر منتخب کرنا پڑتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کی زبانوں کو قومی سطح پر نہ صرف پذیرائی مل رہی ہے بلکہ متعدد اقدامات ایسے بھی اُٹھائے جارہے ہیں جن سے ان قدیم اور منفرد زبانوں کی بقا اور سلامتی میں مدد مل سکتی ہے۔ تاہم، وقتاً فوقتاً ایسی کمزوریاں بھی سامنے آتی ہیں جن سے وخی اور دیگر زبانیں بولنے والوں کی دل شکنی ہوتی ہے اور پیغام یہ ملتا ہے کہ یہ زبانیں شائد اتنی اہمیت کی حامل نہیں ہے، جتی دوسری ہیں۔ یہ تاثر یقیناً مایوسی پھیلا دیتی ہے۔
جہاں گلگت بلتستان کی دیگر خوبصورت اور زرخیز زبانوں کو اس فارم میں شامل کیا گیا ہے وہاں وخی زبان کو شامل کرنے میں کوئی رکاوٹ بظاہر نہیں ہونی چاہیے۔ یاد رہے کہ قومی مردم شماری کے فارم میں گلگت بلتستان کی کوئی بھی زبان شامل نہیں تھی، جس کے باعث پورے علاقے میں مایوسی پھیلی تھی۔
بہت سارے افراد نے سوشل میڈیا اور سیٹیزن پورٹل کے ذریعے اس زیادتی کی نشاندہی کی ہے، اور مدہم سی امید ہے کہ شائد ان آوازوں کو پزیرائی ملے۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان محمد خالد خورشید اور وزیر برائے ثقافت راجہ ناصر علی خان سے بھی گزارش ہے کہ سرکاری کاغذات میں وخی سمیت گلگت بلتستان کی تمام زبانوں کو برابری کی بنیاد پر اہمیت دی جائے۔ اس موقعے پرعمومی معلومات کے لئے کچھ ماہ قبل تحریر کردہ مضمون پیش کررہا ہوں، تاکہ ان لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوسکے جو وخی زبان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے ہیں۔
لسانی خاندان:
وخی زبان کا تعلق ہند-یورپی لسانی خاندان کی مشرقی ایرانی شاخ سے ہے۔ تاریخی طور پر وخی دریائے آمو کے گرد آباد قبائل کی زبان رہی ہے۔ جدید تحقیق کی روشنی میں یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ جینیاتی طور پر ابتدائی وخی زبان بولنے والوں کا تعلق سیتھین گروہ کی ذیلی شاخ "ساکا" ، بالخصوص میساگیٹس ( جنوبی ساکا)، سے ہے۔ محققین کے مطابق وخی زبان کا قریب ترین تعلق بعض ساکا زبانوں مثلاً قُمتشیز اور خوتانیز سے ہے۔
لفظ وخی کا مخرج: لفظ وخی "ووخھیک" یا "خھیک" کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے، جس کا مخرج "وخش" ، "واخشو" یا "واکسو" ہے جو دریائے آمو کا قدیم نام رہا ہے۔آمو دریا کو یونانی زبان میں اوکسس بھی کہا گیا ہے۔ وخی زبان بولنے والے خود کو "خھیک" اور اپنی زبان کو "خھیک وور" کہتے ہیں، جس کا لفظی مطلب ہے "خھیک زبان"۔
سیاسی پس منظر:
معروف جرمن محقق ڈاکٹر ہرمین کروٹزمین اپنی کتاب "وخان کواڈرینگل" میں لکھتے ہیں کہ صدیوں تک وخان ایک چھوٹی اور نیم خودمختار ریاست کے طور پر اہمیت کا حامل علاقہ رہا ۔عسکری یا مالی لحاظ سے وخان کوئی بہت طاقتور ریاست نہیں تھی ۔ تاہم وخان کی وادی شاہراہ ریشم کا ایک انتہائی اہم حصہ ہونے کی وجہ سے ایک بین الاقوامی تجارتی گزرگاہ تھی۔ وخان کے حکمران (میر) کی اہم ترین آمدنی وہ ٹیکسز تھے جو وادی سے گزرنے والی تجارتی کاروانوں سے وصول کیا جاتاتھا۔
اس خطے کی قدیم تاریخ کے شواہد آج بھی کچھ انتہائی اہم اور قدیم قلعوں ، جیسے کہ فرشم (ریشم) قلعہ، قلعہ یمچون، یا پھر قلعہ پنج ،کی شکل میں موجود ہیں۔ یمچون قلعے کے بارے میں کہا جاتا ہے اسے تین سو سال قبل مسیح پہلی بار تعمیر کیا گیا تھا، اور اس کی تعمیر کا بنیادی مقصد تجارتی گزرگاہ کو محفوظ رکھنا تھا۔ یمچون قلعے کی باقیات آج بھی وخجیر پاس کے نزدیک ایک پہاڑی پر موجود ہیں۔
وخی زبان پر اپنی پی ایچ ڈی کی تھیسز لکھنے والی محقق جابروسلووا اوبرتلووا نے 2019 میں شائع کردہ کردہ ایک تحقیقی مقالے "وخی زبان میں تاریخ وخان کا مختصر احاطہ کرتے ہوے مختلف ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ وخان سمیت پامیر کی سطح مرتفع میں یونانی افواج کے اثرات اور آثار موجود ہیں۔ بکٹیرین سلطنت کی قرب وجوار کے علاقوں میں موجودگی کے باعث یونانی اثرات کا نظر آنا قرین از قیاس نہیں ہے۔
چین، روس اور برطانوی ہندوستان کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے وخان کی جغرافیائی اہمیت مسلم رہی ہے۔ اس لئے 1873 میں روسی اور برطانوی استعماری قوتوں نے دفاعی و تزویراتی اہمیت کے پیش نظر اس علاقے کو ایک بفر زون بنانے کے معائدے پر دستخط کردیا۔ اگرچہ اس سے قبل بھی پامیر میں واقع چھوٹی بڑی ریاستوں کے درمیان لڑائیاں ہوتی تھیں، مگر برطانوی اور روسی معائدے کے بعد اس خطے کی سیاسی اساس بدل گئی۔ اس نازک سیاسی صورتحال میں جب کابل کے امیر عبدالرحمن خان نے وخان کے ہمسائے میں واقع شغنان کے حکمران میر یوسف علی کو گرفتار کر کے کابل منتقل کردیا، تو وخان کے باشندوں اور حکمرانوں کو خطرے کی گھنٹیاں سنائی دینے لگیں۔
ڈاکٹر ہرمین اپنی کتاب "دی وخان کواڈرینگل" میں لکھتے ہیں کہ ہمسائیگی میں افغانی یلغار کے بعد وخان میں خوف و ہراس پھیل گیا تھا، کیونکہ وخان ایک چھوٹی ریاست تھی، اور اس کی آبادی بھی چند ہزار نفوس پر مشتمل تھی، جو افغان حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ انہیں خوف تھا کہ وخان پر افغان تسلط کے بعد انہیں غلام بنایا جائےگا، یا زبردستی فوج میں شامل کیا جائے گا، یا پھر کار بیگار کے لئے ان کا استحصال کیا جائے گا۔ انہی حالات کے پیش نظر 1883 میں وخان کے آخری نیم خود مختار حکمران ، میر مردان علی شاہ اپنے سینکڑوں ساتھیوں کے ہمراہ علاقے کو چھوڑ کر قرب و جوار کی مختلف وادیوں میں پناہ گزین ہو گئے۔
1884 میں برطانوی استعمار کی ایما پر لشکر کشی کے بعد وخان کو افغانستان کا حصہ بنادیا۔ 1895 میں روسی اثر کے تحت وخان کی قدیم ریاست کو دو نیم کرکے دریائے آمو کو سرحد کی حیثیت دی گئی۔ اور یوں وخان کی بچی کچی ریاست کی ہیت مکمل طورپر بدل گئی۔ ان واقعات کے تقریباً سو سال بعد سوویت یونین کی تباہی کے بعد ریاست وخان کا روسی زیر اثر علاقہ تاجکستان کا حصہ بن گیا۔
ریاست کا شیرازہ بکھرنے کے بعد وخی لسانی گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد، جو ویسے بھی تعداد میں کم تھے، تتر بتر ہونے کی وجہ سے مرکزیت سے محروم ہوگئے۔ مختلف وادیوں اور سیاسی اکائیوں میں نو آباد ہونے والے وخیوں کے باہمی روابط انتہائی کم یا پھر مکمل مسدود ہوگئے۔ سقوطِ وخان سے پہلے اور اس کے بعد مختلف وادیوں میں پناہ گزین ہونے والے وخی اپنی سیاسی اور سماجی اہمیت کھو بیٹھے، اور ان نئے علاقوں کی سیاسی و ثقافتی حقائق کے پیش نظر بطور اقلیت زندگی گزارنے لگے۔ ان تبدیلیوں کے اثرات وخی بولنے والوں کی معیشت کے ساتھ ساتھ ان کی زبان ومعاشرت پر بھی مرتب ہوے۔ عصر حاضر کی وخی شاعری میں اب بھی خاکِ وخان سے محبت کی عکاسی ہوتی ہے۔ آج بھی "اوخھ وطن" ، "لعلِ بدخشان" اور "امبرِ پامیر" کا ذکر شعر و شاعری میں جابجا نظر آتا ہے۔
اگرچہ وخی بولنے والوں کی تعداد کے بارے میں کوئی مستند اعداد وشمار موجود نہیں ہیں، کیونکہ اس ضمن میں کوئی منظم کوشش آج تک نہیں ہوئی ہے، مگر مختلف اندازوں کے مطابق عصر حاضر میں وخیوں کی کل آبادی زیادہ سے زیادہ 70 ہزار سے ایک لاکھ کے بھگ ہے۔
وخی زبان عصر حاضر میں:
آج کل وخی لسانی گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد تاجکستان، افغانستان، پاکستان اور چین میں آباد ہیں۔ ان چاروں ممالک میں مختلف حکومتی نظام رائج ہیں، اس لئے اقلیتی وخی انہی معاشروں کے رنگ میں رنگتے ہوے اپنی شناخت دھیرے دھیرے کھو رہے ہیں۔ اس شناخت کو برقرار رکھنے میں ادب اور ثقافت کا اہم کردار ہوسکتاہے، مگر ادبی کوششیں انتہائی ناکافی ہیں، اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ وخی زبان کی آج تک کوئی رسم الخط مرتب نہیں ہوئی ہے۔ اس وقت تاجکستان میں مقیم وخی بولنے والے روسی رسم الخط استعمال کرتے ہیں۔ افغانستان میں غیر رسمی طور پر وخی تحاریر کے لئے عربی رسم الخط مستعمل ہے۔ چین میں عربی اور چینی رسم الخط غیر رسمی طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ پاکستان میں لاطینی-یونانی، انگلیسی اور عربی رسم الخط مستعمل ہیں ۔ ان ممالک کی سیاسی اور ثقافتی ترجیحات اور حقائق مختلف ہونے کی وجہ سے وخی زبان بولنے والے ایک دوسرے سے کٹے ہوے ہیں۔ اسی لئے آج تک وخی زبان کی کوئی مشترکہ رسم الخط بھی وجود میں نہیں آئی ہے۔
مشترکہ رسم الخطہ نہ ہونے کے باوجود وخی زبان میں تخلیقی کام محدود سطح پر جاری ہے۔ تاجکستان میں وخی زبان کی کئی کتابیں روسی رسم الخط میں مسلسل شائع ہورہی ہیں۔ پاکستان میں 1980 کے دہائی میں کراچی میں زیر تعلیم گوجال ہنزہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے "وخ" نامی کتاب کی اشاعت کی تھی، جس میں عربی رسم الخظ استعمال کرتے ہوے پہلی بار وخی تحاریر کو شائع کیاگیا، اورگرامر کے اصول مرتب کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعد میں کراچی ہی سے "سم سنگ" نامی ایک کتابچے کی اشاعت ہوئی، جس میں لاطینی-یونانی رسم الخط کو استعمال کرتے ہوے وخی تحریریں شائع ہوئیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران لاطیبی/یونانی رسم الخط استعمال کرتےہوے مختلف کتابیں پاکستان میں شائع ہوئی ہیں، جیسے کہ کریم خان ساکا کی شائع کردہ "وخی ایکسپرس"، پامیر میڈیا گروپ کی شائع کردہ "بیاض بلبل"، اور بلبلک سکول کی شائع کردہ منتخب قدیم و جدید شعرا کے کلام کا مختصر مجموعہ۔
وخی زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے لئے 1990 کی دہائی میں وخی تاجک ثقافتی انجمن (کلچرل ایسوسی ایشن ) کے نام سے پاکستان میں ایک تنظیم وجو د میں آئی جس نے ثقافتی پروگرامز کا آغاز کر کے لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے چین اور پاکستان کے وخی بولنے والوں کے درمیان روابط بڑھانے میں بھی اہم کردار ادا کیا، جس کا ایک مظہر چینی وخی اور سریقولی فنکاروں کا متعدد بار پاکستان آکر ثقافتی پروگرامز میں شرکت کرنا ہے۔ وخی تاجک کلچرل ایسوسی ایشن ہی کی کوششوں کے باعث ریڈیو گلگت سے وخی زبان میں پروگرام کا آغاز بھی ہوا، جو آج بھی جاری ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں کے دوران انفرادی اور اجتماعی سطح پر وخی زبان کی رسم الخط وضع کرنے کی کافی ساری کاوشیں ہوئی ہیں۔ ماسٹر حقیقت علی نے لاطینی رسم الخط استعمال کرتے ہوے ایک وخی قاعدے کا اجرا کیا۔ ان کے بعد احمد جامی سخی نے عربی رسم الخط کے ساتھ ایک قاعدہ متعارف کروایا۔ الامین ماڈل سکول گلمت میں لاطینی -یونانی رسم الخط استعمال کرتے ہوے مقامی سطح پر وخی زبان بچوں کو پڑھانے کی کوششیں بھی ہوئیں۔ دیگر شعرا ، محققین اور ادبا نے بھی اپنی سطح پر ان کاوشوں میں بھر پور حصہ لے رہے ہیں۔ چند سال قبل موسیقی اور زبان کی ترویج کے لئے دی گلمت ایجوکیشنل اینڈ سوشل ویلفئیر سوسائیٹی نے "بلبلک" کے نام سے ایک ادارہ قائم کر کے ان کوششوں کو ایک نئی جہت دی۔ چند سالوں سے گلگت بلتستان کی حکومت بھی وخی زبان میں ایک قاعدہ شائع کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ غرض، وخی زبان و ثقافت کی ترویج و اشاعت کےلئے مختلف پہلووں پر کام ہورہاہے۔
ان تمام کوششوں کے باوجود اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے وخی زبان کو اپنی سرخ کتاب "ریڈ بُک" میں شمار کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ جدید نظام تعلیم اور معاشی و معاشرتی دباو کے تحت دھیرے دھیرے وخی بولنے والوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے اور یہ قدیم زبان معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔
ڈیجیٹل میڈیا کی ایجاد نے عالمی سطح پر فاصلے گھٹانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیاہے۔آج فیس بُک، واٹس ایپ اور دیگر ذرائع ابلاغ پر دنیا بھر کے وخی ایک دوسرے سے روزانہ رابطہ کر رہےہیں۔ ورچوئل دنیا میں شعرو شاعری کے محافل سجائے جارہےہیں، مباحثے ہورہےہیں، مختلف موضوعات پر گفت و شنید ہورہی ہے۔ مختلف ویب سائٹس اور بلاگز بھی اس عمل میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں، جس کی بدولت وخی زبان میں روزانہ ڈیجٹیل مواد نہ صرف تیار ہورہا ہے بلکہ سرحدوں اور فاصلوں کی رکاوٹیں عبور کر کے لوگ تک پہنچ بھی رہا ہے۔ امید ہے کہ مستقبل قریب میں یہ روابط زیادہ منظم اور زیادہ مفید ثابت ہونگے۔ ڈیجیٹل میڈیا کی تصویر اور آواز سے مزین دنیا میں رسم الخظ کی اتنی اہمیت نہیں ہے، اس لئے مواد کی تیاری اور ترسیل کا کام مثبت انداز میں ہورہا ہے ۔
تاہم دیرپا روابط ، تعلیم و تدریس اور تحقیق کے لئے ایک مشترکہ، عالمی، رسم الخط کا وجود میں آنا ناگزیر ہے۔ آن لائن فارمز اور دیگر روابط کے دوران انگلیسی/لاطینی رسم الخط اپنانے پر اتفاق ہوتا نظر آرہا ہے، جو مستقبل کے لئے ایک نیک شگون ہے۔ تاجکستان سے تعلق رکھنے والے معروف وخی سکالر ڈاکٹر بوغشو لشکربیکو نے اسلام آباد میں منعقدہ ایک نشست کے دوران انگلیسی/لاطینی رسم الخط اپنانے کی صلاح دی تھی، جسے اپنانے میں تعلیم یافتہ افراد اور نوجوان سنجیدہ نظر آرہے ہیں۔ انگلیسی حروف تہجی عالمی سطح پر معروف ہیں، اور وخی بولنے والوں کی نئی نسلیں اس رسم الخط سے پہلے ہی آگاہ ہیں۔ اس لئے انگلیسی رسم الخط کو اپنانا ایک منطقی فیصلہ لگ رہا ہے۔
مستقبل میں وخی زبان کی ترویج و اشاعت کے لئے بین الاقومی کوششوں کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان، چین ، افغانستان اور تاجکستان کی حکومتوں کی مدد کے بغیر چند میلوں کی مسافت پر منقسم وخی قوم کے افراد ایک دوسرے سے گھل مل نہیں سکتے ۔ کیونکہ وخی بولنے والے کسی بھی ملک میں سیاسی طور پر مضبوط نہیں ہیں، اس لئے ان کی آواز یں ، فریادیں اور مطالبات مقتدر حلقوں تک شازونادر ہی پہنچتی ہیں۔ تاہم، وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تجارتی راہداریوں کے کھلنےسے بہتری کی امید پیدا ہوسکتی ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل قریب میں ان ممالک میں آباد وخی بولنے والے اپنی اپنی ریاستوں کا وفادار رہتے ہوے مشترکہ زبان، تاریخ اور ثقافت کی بنیاد پرتعلقات استوار کرتے ہوے باہمی روابط بڑھا سکیں گے۔ ان روابط کے بغیر وخی زبان و ثقافت کی بقا خطرے میں رہے گی۔
یہ مضمون مجلہ "سربلند" میں پہلے شائع ہوئی ہے۔
1 comments:
اچھی تحریر پڑھنے کو ملا۔ انداز بیان موئثر اور غیر متازعہ ہے۔ البتہ روس اور ترکی کے وخیوں کو بھلا دیا گیا ہے۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔