امریکی سیاست میں گزشتہ چند دنوں سے ایک بھونچال برپا ہے۔ ایوان نمائندگان پر ٹرمپ نواز جتھوں کے حملے کے بعد حالات مکمل طور پر بدل چکے ہیں۔ ریپبلکن پارٹی پر ہر طرف سے سب و شتم کی بارش ہورہی ہے۔ ٹرمپ کی جماعت سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس کی مخالفت میں بولنے لگے ہیں۔
ڈیموکریٹ پارٹی اور بہت سارے میڈیا اداروں کا نائب صد مائیکل پینس سے یہ مطالبہ رہا ہے گزشتہ کچھ دنوں سے کہ وہ آئین کے تحت صدر کو چلتا کردے۔ تاہم نائب صدر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے، کیونکہ ان کے مطابق جس قانون کے تحت صدر کو نکالنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے اس کا اطلاق صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب صدر جسمانی یا ذہنی امراض کو شکار ہونے کے بعد اپنے فرائض سرانجام دینے کیقابل نہ رہے۔
دوسری طرف ڈیموکریٹ پارٹی، جس کے امیدار جوزف بائیڈن نے صدارتی انتخاب جیت لیا ہے، کانگریس میں ایک ایسی قرار داد پیش کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے تحت صدر ٹرمپ کا مواخذہ کیا جاسکتاہے۔ ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹ پارٹی صدر ٹرمپ کو ایک مرتبہ پہلے بھی امپیچ کر چکی ہے، مگر سینٹ سے منظوری نہ ملنے کی وجہ سے ماضی میں صدر ٹرمپ
کو نہیں ہٹایا جاسکا۔
سپیکر نینسی پیلوسی نے آج ہی نو اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس کو صدر ٹرمپ کے مواخذے کی تیاری میں مدد دینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ تیاریاں اپنی جگہ اہم ہیں، لیکن اب بھی ممکن ہے کہ صدر اپنے عہدے سے نہ ہٹے۔ ویسے بھی صدر ٹرمپ کی صدارت کے آٹھ دن باقی ہیں۔ تاہم دوبارہ مواخذے کی صورت میں صدر ٹرمپ مستقبل میں صدر بننے کے لئے نااہل ہونے کے ساتھ ساتھ ان مراعات سے بھی محروم ہوجائے گا جو سابق امریکی صدور کو میسر ہوتی ہیں۔ صدر ٹرمپ ایک امیر آدمی ہے، اس لئے اسے شائد مراعات کی محرومی سے زیادہ فرق نہ پڑے، مگر اس کی علامتی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے۔
اس ساری صورتحال کا پس منظر کچھ یوں کہ صدر ٹرمپ کے حمایتیوں نے، جو ملک کی مختلف ریاستوں میں دارالحکومت واشنگٹن میں اکٹھے ہو گئے تھے، ریاست میں جمہوری و سویلین بالادستی کی علامت سمجھے جانے والی عمارت پر اس وقت دھاوا بول دیا جب اندر کانگریس کے اراکین صدر بائیڈن کی جیت کی توثیق کر رہے تھے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کانگریس صدر جو بائیڈن کی صدارت کی توثیق نہ کرے، کیونکہ ان کے مطابق انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ تاہم تمام پچاس ریاستوں نے صدر جو بائیڈن کے جیت کی توثیق ہے، جس کی وجہ سے ان الزامات کی اہمیت زیادہ نہیں ہیں۔
شکست تسلیم نہیں کرتے ہوے صدر ٹرمپ نے اپنے حمایتیوں کو واشنگٹن ڈی سی (دارالحکومت) میں اکٹھا ہونے کا کہا۔ اس دوران ان پر اشتعال انگیز تقریر کرنے اور مظاہرین کو ورغلانے کا الزام ہے۔ ان کی تقریر کے بعد مظاہرین کانگریس کی عمارت کی طرف روانہ ہوگئیاور حفاظتی حصار کو توڑتے ہوے عمارت میں داخل ہوگئے۔ اس دوران افرا تفری پھیل گئی، جس کے باعث منتخب اراکین کانگریس کو بھاگ کر اپنی جان بچانا پڑی۔
اس دھاوے کے دوران گولی چلنے سے ٹرمپ کی حمایتی خاتون جان بحق ہوگئی، جبکہ ایک پولیس والا بھی زخموں کی تاب نہ لا کر مارا گیا۔ ہنگامے کے دوران طبی وجوہات کے باعث تین دیگر افراد بھی جان بحق ہوگئے۔
حملے کے بعد ملک بھر میں ان حملہ آور جتھوں کو دہشتگرد قرار دے کر ان کے خلاف کاروائیاں ہورہی ہیں۔ جتھوں میں شامل درجنوں افراد کو گرفتار کر کے عدالتوں میں پیش کیا جارہا ہے، جبکہ دیگر افراد کی شناخت اور ان کی گرفتاریوں کا سلسلسہ پورے ملک میں جاری ہے۔ جتھے میں شامل کم از کم ایک ریاستی سطح پر منتخب رہنما نے اپنے عہدے سے استعفی دیا ہے۔
اس واقعے نے پورے امریکہ کے جمہوریت پسندوں اور ترقی پسند سوچ رکھنے والوں میں شدید مایوسی اور غصہ پھیلا دیا ہے،
اور صدر ٹرمپ کے مواخذے کے مطالبات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔
امریکی افواج (آرمی، میرینز، ایر فورس اور نیوی) کے سربراہان نے ایک کھلیخط کے ذریعے دارالحکومت پر حملے کو غداری اور بغاوت قرار دیتے ہوے آئین کی بالادستی یقینی رکھنے کے لئے سیویلین حکومت کی ہدایت کے مطابق اپنے فرائض سرانجام دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
کھربوں کا کاروبارے کرنے والے اداروں نے بھی اس حملے کی مخالفت کرتے ہوے نہ صرف صدر ٹرمپ بلکہ ان کی سیاسی جماعت ریپبلکن پارٹی کی حمایت اور مالی اعانت سے ہاتھ کھینچنے کا اعلان کردیا ہے۔ جبکہ بہت سارے اداروں نے ٹرمپ کے ساتھ کاروباری معائدے ختم کردیا ہے۔ سوشل میڈیا کمپنیوں، مثلاً ٹوئیٹر اور فیس بُک) نے صدر ٹرمپ پر اشتعال انگیزی پھیلانے اور لوگوں کو ورغلانے کا اعلان کرتے ہوے ان کے اکاونٹس بند کر دئے ہیں۔ ان بندشوں کی افادیت اور ان کے دور رس نتائج پر ایک بحث بھی جاری ہے۔ ناقدین کا کنہا ہے کہ چند پرائیویٹ کمپنیوں کے ہاتھوں میں اتنی طاقت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ کسی سربراہِ مملکت پراس طرح کی پابندیاں نصب کرے۔ جرمن کی چانسلر نے بھی ٹویٹر اور فیس بک کے اس فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ امریکہ میں شدت پسند دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے گروہوں میں انتہائی مقبول ہیں۔ ان گروہوں میں وائیٹ سپریمیسسٹس (سفید فاموں کی بالادستی پر یقن رکھنے والے)، فاشسٹس، نیو نازی (جرمنی کے ہٹلر کے فکری پیروکار) اور اسلام اور مسلمانوں، یہودیوں کی مخالفت کرنے والے افراد شامل ہیں۔ ان میں ایسے افراد اور گروہ بھی شامل ہیں جو نسلی بنیادوں پر خود کو دیگر تمام نسلوں سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے افرادکو امریکی سیکیورٹی ادارے گزشتہ کئی برسوں سے امریکی نظام حکومت و معاشرت کے لئے خطرہ قرار دیتے آئے ہیں۔ صدر ٹرمپ اپنے بیانات اور پیغامات کے ذریعے ان عناصر کی حوصلہ افزائی کرتے آئے ہیں، اور ان کے خلاف بیانات دینے سے بھی مسلسل کتراتے رہے ہیں۔
تاہم کانگریس کی عمارت پر حملے کے بعد انہوں نے بھی میڈیا کے دباو کے تحت ان حملوں کی مذمت کرتے ہوے اپنے حمایتیوں کو گھر جانے کی صلاح دی تھی۔ لیکن خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اب بھی صدر ٹرمپ کے حمایتی گڑبڑ پھیلاسکتے ہیں۔
20 جنوری کو صدر جو بائیڈن کی حلف بندی ہورہی ہے، جس کے لئے واشنگٹن میں سیکیورٹی انتظامات کئے جارہے ہیں۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق سی آئی اے اور ایف بی آئی سمیت متعدد سیکیورٹی اداروں نے ایک آپریشن کا آغاز کردیا ہے تاکہ واشنگٹن شہر کو حلف برداری کی تقریب کے لئے محفوظ بنایا جاسکے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ صدر ٹرمپ کے حمایتی 20 جنوری کو دوبارہ اشتعال انگیزی کرسکتے ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔