Saturday, January 09, 2021

تاریخ اور تہذیب کا مطالعہ

عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت سے احساس ہورہا ہے کہ سکول کے  دس سالوں اور کالج و یونیورسٹی کے چھہ سالوں میں جتنا سیکھا جاسکتا تھا، وہ نہیں ہوسکا۔ 

علم البشریات میں دلچسپی کے باعث عموماً انسانی تہذیبوں کے بارے میں مطالعہ کرتا ہوں، اور ہر مطالعے کے ساتھ اپنی جہالت اور سطحی علمیت کی ایک نئی جہت سے آگاہ ہو جاتا ہوں۔ کاش ایسا نہ ہوتا، اور ہمیں سکول کے زمانے سے ہی کم از کم بنیادی معلومات فراہم کی جاتی، اور ہمیں ڈنڈے کے زور پر اسباق ازبر کروانے کی بجائے سیکھنے کی صلاحیت سکھائی جاتی۔ 

ہم معاشرتی علوم کے نام پر ایسی معلومات حفظ کرتے رہے جن کا ہمارے خطے سے، ہمارے معاشرے سے،زیادہ لینا دینا نہ تھا۔ تاریخ کے نام پر ہمیں کچھ واقعات اس طرح پڑھائے جاتے رہے کہ ہم انہی کو مطلق سچ سمجھ بیٹھے اور اس عمل میں فکری آلودگی کا شکار ہوگئے۔ 

تاریخ کے نام پر ایک محدود سمجھ پیدا کی گئی، سیاسی ضروریات کے تحت، جبکہ مذہب اور تہذیب کے نام پر ہمیں میٹھے اور کڑوے انداز میں نفرت سکھائی گئی۔ 

ہم میں سیکھنے، پرکھنے، سوچنے، اور سمجھنے کی محدود صلاحیت ایک انتہائی منظم اور مربوط نظام کے تحت اس طرح سے پیدا کی جاتی تھی کہ ہم ایک دائرے میں ہی گھوم کر خود کو "عالم" و "فاضل"، "پڑھا لکھا" تصور کر لیں۔ 

گلگت بلتستان کی تاریخ انتہائی قدیم ہے۔ گلگت بلتستان اور اس کے قرب و جوار کے علاقوں میں تاریخ ساز اور حیرت انگیز کہانیاں مدفون ہیں۔ یہاں ہڈور، داریل، تانگیر اور دیگر تمام علاقوں میں ہزاروں سالوں کی تہذیب کے مظاہر کھلی فضا تلے موجودہیں، مگر ہمیں سکولوں میں ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں پڑھایا گیا۔ شائد ہماری تاریخ اور تہذیب کو اس قابل نہ سمجھا گیا، یا پھر ہمیں علم و دانش کے قابل نہ سمجھا گیا۔ وجہ جو بھی ہو، ہم میں سے زیادہ تر جاہل رہے اپنے اور اپنے علاقے کے بارے میں۔ 

یہ علاقہ جسے ہمیں اپنا کہتے ہیں، کبھی بکٹیرین تہذیب کا حصہ رہا، کبھی سیتھین اور کبھی سوگدین۔ کبھی یہاں کاشانیوں کا زور رہا اور کبھی خُتن والوں کا۔ لیکن عین ممکن ہے کہ ہم میں سے بہت ساروں کو یہ نام بھی عجیب و غریب اور "غیر مقامی" لگیں گے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم انہی ماضی کی تہذیبوں سے کسی نہ کسی حوالے سے جُڑے ہوے ہیں، اور جنہیں ہم آج  اپنی ثقافت اور زبان کہتے ہیں، عین ممکن ہے کہ یہ انہی تہذیبوں کی دین ہے۔ 

اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں کوئی اور، گم گشتہ و گم شدہ، تہذیب کے امین آباد ہیں، جن کے بارے میں سائنس اور تاریخ کو معلوم ہی نہیں۔

فکری تجسس کی کمی کے باعث ہم یہ بات اکثر بھول جاتے ہیں کہ ہمارے اجسام نئے ہیں، مگر جنہیں ہم اپنے افکار کہتے اور سمجھتے ہیں وہ بہت پرانے ہیں۔ ہماری زبانوں کی مثال لیجئے، جن کی ہزاروں سالوں کی تاریخ ہے۔ 

تاریخ کو مذہب کے نقطہ نگاہ سے دیکھ کر ماضی سے نفرت کرنا یا ماضی کے بارے میں متجسس نہ ہونا ہماری فکری استعداد کی محدودیت کا مظہر نہیں تو اور کیا ہے؟ 

آج اگر آپ گلگت بلتستان کے اوسط طلبہ و طالبات سے ان کے علاقے کی تاریخ و تہذیب اور سماج و معاشرت کے بارے میں سوال کریں گے تو آپ کے خیال میں کتنے بچوں اور نوجوانوں کو ان حقائق سے آگاہی ہوگی؟ کوئی ولاگر (ویڈیو بلاگر) اگر گلگت اور دیامر کی سڑکوں پر، یا کسی بھی ضلعے کی سڑکوں، پر نکل کر لوگوں سے ہمارے اپنے اضلاع اور دیہات، ماضی کی ریاستوں، کے بارے میں سوالات پوچھے تو کتنے لوگوں کے پاس درست معلومات ہونگیں؟

مجھے اس حوالے سے کوئی خاص خوش فہمی نہیں ہے، کیونکہ میں اس تعلیمی نظام سے گزر کر آیا ہوں۔


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔