کراچی میں رہائش کے دوران ایک روز ہمیں ڈائمنڈ پلازہ نامی بلڈنگ میں واقع اپارٹمنٹ سے نکل جانے کا حکم ملا۔ فوراً دوسرے گھر کی تلاش شروع ہوگئی۔ مالی حالت اچھی نہیں تھی، اسلئے بلڈنگ میں اپارٹمنٹ نصیب نہ ہوا۔ نتیجتاً تلاش بسیار کے بعد لسبیلہ چوک (سگنل) پر واقع نعمان مسجد کے عقب میں ایک قبر نُما مکان میں منتقل ہونا پڑا۔ چھوٹے سے مکان میں ہم تقریباً آٹھ افراد رہ رہے تھے۔ ایک نسبتاً بڑا کمرہ تھا، جس کے سامنے، داخلی دروازے کے قریب، 4 * 10 کا ایک کمرہ تھا۔ عمارت میں کوئی کھڑکی نہیں تھی۔ چھت کے قریب ایک طرف ایک مستطیل روشندان موجود تھا۔
اس عمارت میں رہائش ہماری زندگی کاتلخ ترین تجربہ تھا۔ بجلی چلی جانے کی صورت میں گرمی اتنی بڑھ جاتی تھی کہ رات بھر نیند نہیں آتی تھی۔ ایک باتھ روم اور ایک کچن اپارٹمنٹ (نہ جانے کیوں اس مکان کو اپارٹمنٹ لکھتے ہوے میری ہنسی نکل جاتی ہے) میں موجود تھا، مگراتنا چھوٹا کہ اندر داخل ہونے پر قبر کی اندھیری رات کا تجربہ ملتا تھا۔
غسل خانے کے ساتھ ایک اور مسلہ بھی تھا۔ یہ رہائشی کمرے کی فرش سے تقریباً ایک فٹ اوپر (نہ جانے کس فلسفے کے تحت) تعمیر کیا گیا تھا۔ اور اس پر قیامت یہ تھی کہ باتھ روم کا ٹِن سے بنا دروازہ نیچے سے اسطرح کھلا ہوا تھاکہ اگر کوئی فرش پر لیٹ کر دیکھتا تو اندر جاری تمام کاروائیاں نظر آتی تھیں۔
باقی صورتحال آپ خود سمجھ سکتے ہیں!
جون یا جولائی کی ایک رات گرمی اتنی شدید تھی کہ قبرستان اپارٹمنٹ کی فرش اور اس کی دیواریں بھی تندور کی طرح گرم ہوگئی تھیں۔ بجلی کا نام و نشان نہ تھا۔ ہم لوگوں نے باہمی مشاورت سے عمارت کی چھت پر چڑھ کر سونے کا ارادہ کرلیا۔
چھت پر پہنچے تو متاثرین گرمی کی ایک بڑی تعداد پہلے سے ہی موجود تھی۔ ہم بھی ٹٹولتے ٹٹولتے جگہے ڈھونڈ کر لیٹ گئے۔ صبح اُٹھ کر دیکھا تو ہمارے ارد گرد سونے والوں میں وہ افراد بھی موجود تھے جو چاندنی چوک (گارڈن ویسٹ) میں ایک تندور پر کام کرتے تھے۔ اُنہیں معلوم ہوا کہ ہم بھی اسی عمارت میں رہتے ہیں تو بہت خوش ہوے۔ ان سے واقفیت بہت ساروں کی تھی کیونکہ نان روٹی ہم انہی کے تندور سے لاتے تھے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں شہید ذولفیقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (زیبسٹ) میں تیسرے یا چوتھے سمسٹر کا طالبعلم تھا۔
گھر میں رہائش کے دوران پڑھائی کا تصور کرنا بھی محال تھا، اسلئے رات گئے تک تعلیمی ادارے کے کمپیوٹر لیب اور لائبریری میں بیٹھ کر پڑھنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ اس دوران لیب میں کام کرنیوالے ملازموں کو بھی اندازہ ہوگیا کہ دیر تک یونیورسٹی میں رہنا میری ضرورت اور مجبوری ہے، تو انہوں نے اعتراض کرنا چھوڑدیا، بلکہ ان کے ساتھ اچھی خاصی دوستی بھی ہوگئی۔
انہی دنوں ہمیں کمپیوٹر پروگرامنگ کا ایک کورس پڑھایا جا رہا تھا۔ میں نے پروگرامنگ سیکھنے کے لئے ایک کمپیوٹر خریدا۔ خریداری کے چند دنوں بعد گھر پر ڈکیتی کی کوشش ہوئی، جسے ہمارے ایک دوست نے شور مچا کر ناکام بنادیا۔ اس خوف سے کہ دوبارہ ڈکیتی ہوگی اور کمپیوٹر ہاتھ سے نکل جائے گا، میں نے کمپیوٹر پیک کر کے اپنے محفوظ رکھنے کیلئے رشتہ دار کے گھر رکھوا دیا۔
چار مہینے تک شائد اس قبرستان اپارٹمنٹ میں رہنے کا تلخ تجربہ ہوا۔ سمسٹر کی طوالت بھی اتنی ہی تھی۔ نتیجہ آیا تو چھ میں سے چار کتابوں میں "ڈی" گریڈ حاصل ہوا تھا، یعنی نمبرات 60 سے 70 کے درمیان تھے۔ پاس ہونے کیلئے کم از کم سی (70 فیصد) حاصل کرنا لازمی ہوتا تھا۔ رزلٹ خراب ہونے کی وجہ سے آغا خان ایجوکیشن سروس والوں نے سکالر شپ کی رقم روک دی، جسے وہ ہر سمسٹر کے آخر میں رزلٹ کی جانچ کے بعد جاری کرتے تھے۔ اگلے سمسٹر میں محنت کر کے کامیابی حاصل کر لی تو سکالر شپ دوبارہ بحال کردی گئی۔
کئی مہینے تک اس قبرستان اپارٹمنٹ میں رہنے کے بعد ہمیں گارڈن ویسٹ میں ہی "علی نگر" نامی عمارت میں ایک اپارٹمنٹ مل گئی۔
نئے اپارٹمنٹ میں متنقلی کی تڑپ اتنی تھی کہ مقررہ تاریخ پرہم صبح نہار بوری بستر ایک سوزوکی میں لاد کر علی نگر کے باہر پہنچ گئے۔ اپارٹمنٹ کے مکین ابھی گھر میں ہی موجود تھے، اور چند دنوں کا وقت مانگ رہے تھے۔ مکینوں کا تعلق بھی ہنزہ کے ایک علاقے سے تھا، اس لئے ہم نے اپنا سامان اپارٹمنٹ کے اندر ہی ایک کمریمیں منتقل کیا اور راضی ہوگئے کہ وہ چند دنوں کے بعد عمارت چھوڑ سکتے تھے۔ ہمارے چند روم میٹس نے البتہ سامان سمیت اسی کمرے میں متقل ہونے کا فیصلہ کرلیا، تاکہ "قبضہ" مل جائے۔ ہم نے دو یا تین دن دوستوں کے ساتھ ان کے گھروں میں قیام کیا۔
چند روز بعد ہم مکمل طور پر اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گئے، اور یوں ہمیں اس عذاب سے نجات ملی۔
آج فیس بُک پر علی نگر اپارٹمنٹ کی ایک تصویر دیکھی جس میں عمارت کے باہر ایک ایمبولینس کھڑی ہے۔ تصویر کے ساتھ کیپشن لکھا گیا ہے کہ عمارت میں کورونا وائرس کا کوئی مریض موجود ہے۔
تصویر دیکھ کر یہ فلم خیال سینیما میں تیزی سے چل پڑی۔
اس عمارت میں رہائش ہماری زندگی کاتلخ ترین تجربہ تھا۔ بجلی چلی جانے کی صورت میں گرمی اتنی بڑھ جاتی تھی کہ رات بھر نیند نہیں آتی تھی۔ ایک باتھ روم اور ایک کچن اپارٹمنٹ (نہ جانے کیوں اس مکان کو اپارٹمنٹ لکھتے ہوے میری ہنسی نکل جاتی ہے) میں موجود تھا، مگراتنا چھوٹا کہ اندر داخل ہونے پر قبر کی اندھیری رات کا تجربہ ملتا تھا۔
غسل خانے کے ساتھ ایک اور مسلہ بھی تھا۔ یہ رہائشی کمرے کی فرش سے تقریباً ایک فٹ اوپر (نہ جانے کس فلسفے کے تحت) تعمیر کیا گیا تھا۔ اور اس پر قیامت یہ تھی کہ باتھ روم کا ٹِن سے بنا دروازہ نیچے سے اسطرح کھلا ہوا تھاکہ اگر کوئی فرش پر لیٹ کر دیکھتا تو اندر جاری تمام کاروائیاں نظر آتی تھیں۔
باقی صورتحال آپ خود سمجھ سکتے ہیں!
جون یا جولائی کی ایک رات گرمی اتنی شدید تھی کہ قبرستان اپارٹمنٹ کی فرش اور اس کی دیواریں بھی تندور کی طرح گرم ہوگئی تھیں۔ بجلی کا نام و نشان نہ تھا۔ ہم لوگوں نے باہمی مشاورت سے عمارت کی چھت پر چڑھ کر سونے کا ارادہ کرلیا۔
چھت پر پہنچے تو متاثرین گرمی کی ایک بڑی تعداد پہلے سے ہی موجود تھی۔ ہم بھی ٹٹولتے ٹٹولتے جگہے ڈھونڈ کر لیٹ گئے۔ صبح اُٹھ کر دیکھا تو ہمارے ارد گرد سونے والوں میں وہ افراد بھی موجود تھے جو چاندنی چوک (گارڈن ویسٹ) میں ایک تندور پر کام کرتے تھے۔ اُنہیں معلوم ہوا کہ ہم بھی اسی عمارت میں رہتے ہیں تو بہت خوش ہوے۔ ان سے واقفیت بہت ساروں کی تھی کیونکہ نان روٹی ہم انہی کے تندور سے لاتے تھے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں شہید ذولفیقار علی بھٹو انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (زیبسٹ) میں تیسرے یا چوتھے سمسٹر کا طالبعلم تھا۔
گھر میں رہائش کے دوران پڑھائی کا تصور کرنا بھی محال تھا، اسلئے رات گئے تک تعلیمی ادارے کے کمپیوٹر لیب اور لائبریری میں بیٹھ کر پڑھنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ اس دوران لیب میں کام کرنیوالے ملازموں کو بھی اندازہ ہوگیا کہ دیر تک یونیورسٹی میں رہنا میری ضرورت اور مجبوری ہے، تو انہوں نے اعتراض کرنا چھوڑدیا، بلکہ ان کے ساتھ اچھی خاصی دوستی بھی ہوگئی۔
انہی دنوں ہمیں کمپیوٹر پروگرامنگ کا ایک کورس پڑھایا جا رہا تھا۔ میں نے پروگرامنگ سیکھنے کے لئے ایک کمپیوٹر خریدا۔ خریداری کے چند دنوں بعد گھر پر ڈکیتی کی کوشش ہوئی، جسے ہمارے ایک دوست نے شور مچا کر ناکام بنادیا۔ اس خوف سے کہ دوبارہ ڈکیتی ہوگی اور کمپیوٹر ہاتھ سے نکل جائے گا، میں نے کمپیوٹر پیک کر کے اپنے محفوظ رکھنے کیلئے رشتہ دار کے گھر رکھوا دیا۔
چار مہینے تک شائد اس قبرستان اپارٹمنٹ میں رہنے کا تلخ تجربہ ہوا۔ سمسٹر کی طوالت بھی اتنی ہی تھی۔ نتیجہ آیا تو چھ میں سے چار کتابوں میں "ڈی" گریڈ حاصل ہوا تھا، یعنی نمبرات 60 سے 70 کے درمیان تھے۔ پاس ہونے کیلئے کم از کم سی (70 فیصد) حاصل کرنا لازمی ہوتا تھا۔ رزلٹ خراب ہونے کی وجہ سے آغا خان ایجوکیشن سروس والوں نے سکالر شپ کی رقم روک دی، جسے وہ ہر سمسٹر کے آخر میں رزلٹ کی جانچ کے بعد جاری کرتے تھے۔ اگلے سمسٹر میں محنت کر کے کامیابی حاصل کر لی تو سکالر شپ دوبارہ بحال کردی گئی۔
کئی مہینے تک اس قبرستان اپارٹمنٹ میں رہنے کے بعد ہمیں گارڈن ویسٹ میں ہی "علی نگر" نامی عمارت میں ایک اپارٹمنٹ مل گئی۔
نئے اپارٹمنٹ میں متنقلی کی تڑپ اتنی تھی کہ مقررہ تاریخ پرہم صبح نہار بوری بستر ایک سوزوکی میں لاد کر علی نگر کے باہر پہنچ گئے۔ اپارٹمنٹ کے مکین ابھی گھر میں ہی موجود تھے، اور چند دنوں کا وقت مانگ رہے تھے۔ مکینوں کا تعلق بھی ہنزہ کے ایک علاقے سے تھا، اس لئے ہم نے اپنا سامان اپارٹمنٹ کے اندر ہی ایک کمریمیں منتقل کیا اور راضی ہوگئے کہ وہ چند دنوں کے بعد عمارت چھوڑ سکتے تھے۔ ہمارے چند روم میٹس نے البتہ سامان سمیت اسی کمرے میں متقل ہونے کا فیصلہ کرلیا، تاکہ "قبضہ" مل جائے۔ ہم نے دو یا تین دن دوستوں کے ساتھ ان کے گھروں میں قیام کیا۔
چند روز بعد ہم مکمل طور پر اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گئے، اور یوں ہمیں اس عذاب سے نجات ملی۔
آج فیس بُک پر علی نگر اپارٹمنٹ کی ایک تصویر دیکھی جس میں عمارت کے باہر ایک ایمبولینس کھڑی ہے۔ تصویر کے ساتھ کیپشن لکھا گیا ہے کہ عمارت میں کورونا وائرس کا کوئی مریض موجود ہے۔
تصویر دیکھ کر یہ فلم خیال سینیما میں تیزی سے چل پڑی۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔