شادی جن کے درمیان بھی ہو یہ بہر حال ایک سماجی
معائدہ ہوتا ہے۔ شادی خریدوفروخت کا عمل نہیں ہوتا۔ شادی کے دوران سودا نہیں ہوتا۔
شادی کے نتیجے میں ہم کسی کو خرید نہیں سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر الف اور ب کی
شادی ہوتی ہے تو الف ب کا اور ب الف کا مالک نہیں بن جاتا۔ مالک اس لئے نہیں بن سکتا
کیونکہ یہ دو انسانوں کے درمیان ایک معائدہ ہے۔
قدیم دورمیں انسان طاقت یا دولت کی بنیاد پر لوگوں کو خرید کر انہیں بطور غلام رکھ سکتا تھا۔ اس دور میں بہت سارے معاشروں میں غلامی ایک قانونی عمل تھا۔ لیکن وہ جہالت کا زمانہ تھا۔ زمانہ قدیم میں غلاموں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا تھا آج کے معاشرے میں ایسا ہی سلوک ہم میں سے بہت سارے مرد اپنی بیویوں اور بہت ساری عورتیں اپنے شوہروں کے ساتھ روا رکھنا چاہتے ہیں۔
یہ غیر انسانی اور غیر اخلاقی عمل قانون، مذہب، سماج اور معاشرت کے خلاف ہے۔ اس عمل کے شدید قانونی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ لیکن تشدد کے سب سے خطرناک اثرات بچوں کے اذہان اور ان کی شخصیتوں پر پڑتے ہیں۔ بچوں میں ان رویوں کے آثار جلد نمودار نہیں ہوتے، اس لئے ہم ان کا ادراک نہیں کرپاتے۔
ایک سماجی خدمتگار (سوشل ورکر) کی حیثیت سے میری کل نیویارک میں ایک خاتون اور ان کے بچوں سے ملاقات ہوئی۔ جو کچھ میں نے دیکھا اور سُنا وہ میں بیان نہیں کرسکتا ہوں۔ محض اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اپنی بیویوں کو اپنی ملکیت سمجھنے کی روش ختم کر کے ایک صحتمند خاندان اور سماج کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment
Your comment is awaiting moderation.