Wednesday, June 20, 2018

پبلک ہے، یہ سب جانتی ہے

چیف سیکریٹری کے جارحانہ رویے اور غیر منطقی گفتگو پر مبنی ویڈیو نے گلگت بلتستان میں ہلچل پیداکردی۔ گلگت بلتستان آرڈر کے زبردستی ، بغیر اسمبلی سے منظوری ، اطلاق کے بعد علاقے میں ہیجانی کیفیت ہے۔ اسمبلی ممبران سب اچھا ہے کا رٹ لگا رہے ہیں، لیکن واقفانِ حال جانتے اور مانتے ہیں کہ سب اچھا نہیں ہے۔ میرے خیال میں چیف سیکریٹری کو صاحب کو اندازہ نہیں تھا کہ گلگت بلتستان میں ایک جملے کا سوشل میڈیا کی مدد سے ایسا جواب مل سکتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ آئندہ احتیاط کریں گے، کیونکہ بارہا ہمیں بتایا جاتا ہے اور باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ گلگت بلتستان ایک "حساس" علاقہ ہے۔ اس لئے حساس علاقے میں حساس اور ذمہ دارانہ لہجے میں گفتگو کرنے کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ 

جہاں تک بات ویڈیو ایڈٹ کرنے کی ہے، یہ الزام مضحکہ خیز ہی نہیں، عوام کے ساتھ خیانت کے مترادف ہے۔ ویڈیو ایڈٹ کرنے کا الزام لگا کر یہ تاثر پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے کہ لوگوں نے غلط سلط ویڈیو بنا دی ہے۔ ویڈیو ایڈٹ کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ کیا آواز بدل دی گئی ہے، ایسے الفاظ شامل کئے ہیں جو چیف صاحب نے نہیں کہے ہیں، یا پھر غلط ویڈیو شامل کی گئی ہے؟

سب جانتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا ہے۔ پہلے ویڈیو کا ایک مختصر حصہ سوشل میڈیا پر آیا۔ چند گھنٹوں کے بعد ایک اور اینگل سے وہی ویڈیو منظر عام پر آیا۔ اور اگلے دن پوری ویڈیو سوشل میڈیا پر پھیلی ہوئی تھی۔ ہم نے بھی ویڈیو کو ہر زاویے سے دیکھا، ہمیں تو اس میں کوئی ایسی ایڈٹنگ نظر نہیں آئی جس سے گفتگو کا مطلب بدل جائے، یا جس سے تحکمانہ رویے کی توجیہہ پیش کی جاسکے۔ 

وضاحتی بیان جس طرح کا آیا، اسی طرح متوقع تھا۔ ایک حرف یا لفظ ادھر اْدھر نہیں کیا گیا ہے۔گزشتہ دس سالوں سے کمیونیکیشن کے ادنی مزدور کی حیثیت سے متعدد ملکی و غیر ملکی اداروں کے ساتھ کام کرتا آرہا ہوں۔ ڈیمج کنٹرول کی تکنیکوں سے تھوڑی بہت واقفیت ہے۔ 

وخی، میری مادری زبان، میں ایک محاورہ ہے، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے، " پگڈنڈی تعمیر کرنے کی کوشش کرنا، اور وہ بھی اونٹ کے گرنے (اور مرنے) کے بعد۔"اچھی بات تو یہ ہوتی کی اونٹ کی مہار کسی ماہر اشتربان کے ہاتھ میں پکڑادی جاتی۔ لیکن، خیر۔ اونٹ ہی کے حوالے سے ایک حدیث ہے، کہ غلط کام پر کسی کی حمایت کرنا ایسا ہی ہے جیسے اونٹ گھڑے میں گر رہا ہو، اور آپ دُم پکڑ کر اسے بچانے کی کوشش کریں۔ 

مجھے محکمہ اطلاعات کی مجبوریوں اور ذمہ داریوں کا بھرپور اندازہ ہے، اس لئے ان پر تنقید کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ان کا کام حکومت اور حکومتی اداروں کا دفاع کرنا ہے۔ سو وہ کرتے رہیں گے۔ لیکن، ان سے گزارش ہے کہ ہر سماجی اور سیاسی طور پر متحرک آواز کو بین السطور، دبے الفاظ میں، ریاست کے خلاف ہرزہ سرائی کا نام دے کر دشمنوں کی آواز کہنے کی کہنہ و ناکارہ رسم ترک کردیں۔ 

بعض افراد چیف سیکریٹری صاحب کے جارحانہ رویے کا الزام مقامی سیاسی و سماجی کارکن پر لگا رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ مذکورہ شخص نے مسلسل اپنی آواز بلند کر کے صاحب بہادر کی غیض و غضب کو دعوت دی۔ آواز کیوں اونچی کی؟ بات کرتے ہوے ہاتھ کیوں ہلایا؟ چیف صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کیوں بات کی؟ جرات کیسے ہوئی چیف صاحب کے سامنے اپنے مطالبے مکرر پیش کرنے کی؟ اوقات کیا ہے چیف صاحب کے سامنے اس شخص کی؟ سیاسی شخص ہو کر عوامی مسائل کیوں بتا رہا ہے؟ عوام کے منتخب نمائندہ ہے کیا؟ وغیرہ وغیرہ۔ ایسی باتوں کا جواب نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ایسی سوچ پر صرف افسوس کیا جاسکتا ہے۔ 

اگر کبھی کبھار غلطی سے بیوروکریٹس عوام کے ساتھ مہذب انداز میں گفتگوکریں گے تو ان کا قد کم نہیں ہوگا۔ بلکہ اس عوامی خدمات (پبلک سروسز) کے میدان میں جو عوام کے سامنے جتنا جھکتا ہے، اس کا مرتبہ اتنا ہی بلند ہوتا ہے۔ آزما کر دیکھ لیجئے ! 
ہمارے زعما کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ سیاسی رہنما اور سرکاری افسران عوام کو جواب دہ ہیں، کیونکہ انہی کی ڈائریکٹ و ان ڈائریکٹ ٹیکسز سے گلشن کا کاروبار چل رہا ہے ۔ انہیں عوام ہار بھی پیش کرتے ہیں، ان کے راستے میں قطاریں بنا کر گلپاشی بھی کرتے ہیں، چوغے بھی پہناتے ہیں، ٹوپیاں بھی تحفتاً پیش کرتے ہیں، اور کبھی کبھی اپنی صحت اور تعلیم و روزگار کی پریشانیوں تلے دبے شکایت ، احتجاج اور مزاحمت بھی کرتے ہیں۔ اگر آپ چوغے، ہار، تالیاں اور ٹوپیاں قبول کرتے ہیں تو کبھی کبھار ان کے جارحانہ رویوں کے لئے بھی تیار رہنا چاہیے۔ 

سوشل میڈیا پر ردِ عمل بہت شدید تھا۔ کچھ دوستوں نے قابلِ اعتراض نسل پرستی پرمبنی جملے داغے، جن کی کسی طور حمایت نہیں کی جاسکتی ہے۔ گالم گلوچ بھی بہت زیادہ ہوئی، جس سے کچھ اور تو نہیں ہوا، بس ہماری اپنی جگ ہنسائی ہوئی۔ ہم مہذب علاقے کے باسی ہیں، اور ہمیں سخت ترین حالات میں بھی اپنے اقدار کو پسِ پشت نہیں ڈالنا چاہیے۔ 

چیف سیکریٹری صاحب اور دیگر بیوروکریٹس کے ساتھ ساتھ سیاسی و سماجی رہنماوں کو اس واقعے سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے سماج کو یکسر بدل دیا ہے۔ ایک سمارٹ فون ہاتھ میں ہو اور انٹرنیٹ تک رسائی ہو تو کوئی بھی بات چھپ نہیں سکتی ہے۔ زمانہ قبل از سوشل میڈیا میں علاقائی میڈیا کو کنٹرول کر کے معاملے کو دبایا جاسکتا تھا۔ اور پہلے اس طرح کی باتیں یقیناً دفن ہوجاتی تھیں، لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا ہے۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔