بیٹے کے سکول والوں نے کہا کہ سب بچوں کی تصویریں بنوا
رہے ہیں۔ ایک فہرست پکڑا دی، جس میں مختلف سائز کی تصاویر کی تفصیلات اور ان کی قیمتیں
درج تھیں۔ ہم سے پوچھا گیا کہ یہ تصویر بچے کی زندگی کا ایک یادگار لمحہ ہوگا، کیا
آپ اپنے بیٹے کی تصاویربنوانا چاہیں گے؟ ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ بنوادیجئے۔
انہوں نے کہا کہ جو پیکج آپ نے چُنا ہے اس کی قیمت 36
ڈالرہے، اور قیمت نقد دینی پڑے گی۔
اگلے دن میں چالیس ڈالر جیب میں ڈالے سکول چلا گیا، اور
لفافہ استانی کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ انہوں نے کہا کہ قیمت 36 ہے آپ نے چالیس ڈالر
دئیے ہیں۔
میں نے کہا کہ چینج نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں کوشش
کر کے آپ کو پیسے دے دیتی ہوں۔ میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا، مگر اس روز چھُٹے پیسے
نہیں تھے۔
اگلے دن میں بچے کو لے کر سکول گیا لیکن چار ڈالر نہ
مانگ سکا۔ مانگتے ہوے شرمندگی سی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ بھی شائد بھول گئے تھے۔
آج پورے ایک مہینے بعد تصاویر ملیں ایک بڑے لفافے میں۔
ساتھ میں ایک چھوٹا لفافہ بھی تھا، جس میں چار ڈالر پڑے تھے۔ اور ساتھ میں سکول،
جس کا مالک ایک یہودی ہے، کے ہیڈمسٹریس کی طرف سے ایک معذرت نامہ تھا،
"معاف
کیجئے، ہم آپ کو چار ڈالر واپس دینا بھول گئے تھے۔ یہ رہی آپ کی امانت۔"
مجھے بہت خوشگوار حیرت ہوئی۔ سچی بات یہ ہے کہ ایک مہینے
بعد میں خود چار ڈالرز بھول گیا تھا۔
ان کی طرزِ زندگی اور ان کی حکومتوں کی پالیسیز پر تنقید
کی جاسکتی ہے، لیکن یہ مانے بغیر بھی نہیں رہا جاتا کہ روزمرہ کے معاملات میں یہ
بڑے خوفناک حد تک ایماندار ثابت ہورہے ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔