Thursday, May 31, 2018

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا گلگت میں جوتوں سے استقبال


گلگت شہر کے باسی عموماً وی وی آئی پی شخصیات کی آمد سے خوش نہیں ہوتے ہیں۔ اس ناشادی کی ایک اہم وجہ ان اہم ترین شخصیات کی آمد کے وقت شاہراوں ، گلیوں اور سڑکوں کی بندش ہے، کیونکہ سیکیورٹی اداروں کو پُھر پُھر کرتی پُر اسرار چڑیائیں بتاتی ہیں کہ گلگت شہر میں ان شخصیات کی قیمتی زندگیوں کو شدید خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس لئے حفاظت کے نام پر مقامیوں کو گھروں اور چاردیواروں میں ، جبکہ گلیوں، سڑکوں اور محلوں کے داخلی و خارجی راستوں کو ٹرکوں کی مدد سے بند کردیا جاتا ہے، تاکہ کسی عام شخص کی بُری نظر سے حکمران کے کاندھے سے حکمرانی کا ہُما اُڑ کر دور نہ جا بیٹھے۔

وقتِ آمد سے قبل، پوپھٹنے کے ساتھ ہی، گلگت ایر پورٹ کے قریب واقع گھروں کی چھتوں پر دوربین اور جی تھری بردار وی آئی پی سیکیورٹی ڈیوٹی سے بیزار اہلکار براجمان ہوجاتے ہیں۔ گھر والوں کی پرائیویسی کا سوال ہی نہیں اُٹھتا۔ عوام کی کیا پرائیویسی ہوتی ہے؟

خیر، اللہ اللہ کر کے طیارہ دور افق پر نظر آتا ہے تو درباریوں اور سرکاریوں کی صفوں میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ ان کی باچھیں کھل جاتی ہیں۔ دل ہی دل میں مصافحے کی ریہرسل کرتے ہیں۔ اور پھر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ کیمروں کے شٹر کی آوازیں گونجتی ہیں۔ لمحاتِ نیک و بد قید ہوجاتے ہیں۔ اور پھر گاڑیوں کی لمبی قطاریں، سائرن بجاتی، گرد اُڑاتی، عوام کو ان کی اوقات بتاتی، زناٹے سے گزرتی ہیں۔

کچھ کاروائیاں پہلے سے ہی شروع ہوجاتی ہیں۔ آمد سے کچھ دن قبل کسی سیاستدان یا بیوروکریٹ کے یار، ہمکار یا رشتہ دار، کو سڑکوں کی صفائی اور شکستہ و غلیظ دیواروں کی رنگ و روغن کرنے کا ٹھیکہ مل جاتا ہے ۔ بلدیہ کے پاس اتنی صلاحیت ہی نہیں ہوتی کہ خود کام کرسکے، اس لئے کسی ٹھیکیدار کی لاٹری نکل آتی ہے۔ سڑکوں پر پانی پھینکا جاتا ہے، اور بعض اہم مقامات ، بشمول قومی خزانے پر، ہاتھ کھول کر جاڑو بھی پھیرا جاتا ہے۔ گری دیواروں یا بدنما لگنے والی مقامات کے سامنے کسی ٹھیکیدار کی دکان سے اُٹھا کر قنات تانا جاتا ہے ۔ اور ہاں، انتظام و انصرام کے لئے سرکاری افسروں کو تیل کی مد میں لاکھوں کی پرچیاں مل جاتی ہیں۔ بعض حاسدین یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ پرچیاں استعمال کر کے کچھ افسران نقد رقم بھی حاصل کرتے ہیں۔ لیکن یہ ہوائی کسی دشمن ہی نے اڑائی ہے۔

امثال سے واضح ہے کہ وی وی آئی پی موومنٹ کی اپنی معیشت ہے۔ اس لئے ایسے دوروں کی افادیت سے مکمل انکاری ممکن نہیں ہے۔

تاہم ، یہ کہے بغیر بھی نہیں رہا جاسکتا کہ کچھ اہم شخصیات کے دورے بکل بیکار ہوتے ہیں۔ ایک پائی کا فائدہ نہیں ہوتا ہے کسی کو بھی، سوائے ان ٹھیکیداروں اور افسروں کے جو اس دورے کے انتظام و انصرام کے معاملات میں شامل ہوتے ہیں۔

مثلاً صدرمملکت ممنون حسین گزشتہ سال گلگت بلتستان کے طویل دورے پر آئے تو گاوں گاوں قریہ قریہ لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ ہنزہ کے بالائی علاقے گوجال میں بٹورہ گلیشر دیکھنے گئے تو شاہراہ قراقرم سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر بند کردیا گیا۔ یعنی باراتوں اور میتوں، ہر دو، کی مشکلات میں اضافہ۔ لوگ کہتے ہیں کہ ایسے دورے کے دوران عوام حکمرانوں کو ننگی گالیاں دیتے ہیں۔ لیکن یہ گالیاں میں نے کبھی نہیں سنی ہیں۔ لوگوں کی لعنت و ملامت ایک تو اللہ پاک نے سُنی ہوگی، اور دوسری ان پولیس کانسٹیبلز نے جن کے ذمے گاوں کے بیچاروں کو قابومیں رکھنا تھا۔

کل خاقانِ عباسی صاحب نے اقتدار سے جاتے جاتے گلگت کا دورہ کیا۔ ایرپورٹ پر مناظر ایسے ہی تھے، جیسے اوپر بیان کئے گے ہیں۔ عوام غائب، درباری اور سرکاری حاضر۔ وزیر اعظم گلگت بلتستان اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے اورنیا قانون سمجھانے آئے تھے، لیکن اپوزیشن نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ نئے قانون کی کاپیاں پھار کر وزیر اعظم کے سامنے ہوا میں اچھالنے کی حد تک تو بات ٹھیک تھی۔ لیکن حد تب ہو گئی جب ایک محترم رکن اسمبلی نے دوسرے قابل صد احترام رکن اسمبلی و پارلیمانی سیکریٹری کے مکے کا جواب لاٹھی چارج سے دیا، اور انکی وزیر اعظم صاحب کے سامنے درگت بنائی۔ شنید ہے کہ وزیر اعظم صاحب اس دوران کھسیانی سی ہنسی چہرے پر سجائے دم بخود بیٹھے رہے۔

ہنگامہ خیزی کے بعد ، واقفان حال کہتے ہیں، کہ وزیر اعظم صاحب دس منٹ مشترکہ اجلاس سے خطاب کرکے رُخصت ہوگئے۔ ہاں، انہوں نے تین اہم منصوبوں کا افتتاح بھی کیا۔ لیکن ان منصوبوں کا افتتاح انہوں نے اس طرح کیا کہ منصوبے شرق میں تھے، اور افتتاح غرب میں ہوا۔ یہ رسم کہن ہے۔ ان سے پہلے بھی بہت ساری اہم ترین شخصیات دورہ گلگت بلتستان کے موقعے پر بند کمروں کے درمیان رکھے تختوں کی نقاب کشائی کر کے تصویریں بنوا چکے ہیں۔

ممبرانِ اسمبلی کی لڑائی کے علاوہ بھی ایک قدرے سنجیدہ ، دلوں کو رنجیدہ کرنے والا، انوکھا کا م اس بار ہوا۔ اسمبلی کے سامنے دریائے گلگت کے اُس پارچند ہزار احتجاجی مظاہرین کھڑے تھے، کیونکہ اسمبلی کے نزدیک آنے کی انہیں اجازت نہیں ملی تھی۔


تصاویر اور ویڈیوز بتاتے ہیں کہ جب وزیر اعظم صاحب چمکتی اور لمبی گاڑیوں کے جلو میں چنار باغ پہنچے، جہاں گلگت بلتستان کے شہدا کی یاد گار کے پہلو میں اسمبلی کی عمارت بھی ہے، تو دریا کے اس پار کھڑے احتجاجی "دیکھو، دیکھو ، کون آیا، چور آیا، چور آیا" کے نعرے بلند کر رہے تھے ۔ چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ نئے قانون کے مخالف کچھ مظاہرین نے ہاتھوں میں جوتے، اپنے تھے یا پرائے اس کے بارے میں معلومات میسر نہیں ہیں، اس طرح اُٹھائے تھے کہ ان کا رُخ گلگت بلتستان اسمبلی اور وزیر اعظم صاحب کی طرف تھا۔ لیکن، خوش قسمتی سے ان مظاہرین اور وزیر اعظم کے درمیان سینکڑوں فٹ چوڑا دریائے گلگت حائل تھا۔ اس لئے دریا کے شور میں احتجاجیوں کی آواز دب گئی ہوگی۔ گمان ہے کہ وزیر اعظم صاحب کی گاڑی بُلٹ اور بم پروف ہونے کے ساتھ ساتھ ساونڈ پروف بھی ہوتی ہے۔ ۔۔ اور پھر، مشیروں ، وزیروں اور بابووں نے انہیں یقیناً بتایا ہوگا کہ لوگوں کے دل شاد اور ان کی آنکھیں روشن ہیں، اور نئے قانون کی مخالفت کرنے والے شرپسند ہیں، جو وزیر اعلی سے بغض رکھتے ہیں ، اور مسلم لیگ سے جلتے ہیں!!

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔