ہمارا علاقہ بہت حوالوں سے انتہائی غریب تھا۔ بزرگ کہتے
ہیں کہ صرف غربت کا مسلہ نہیں تھا، بلکہ لوگوں میں علم اور شعور کی بھی شدید کمی
تھی۔ خوراک کی بھی کمی تھی، بالخصوص سردیوں کے دنوں میں، جب کھیت بانجھ اور درخت
خشک ہو جاتے تھے۔ کچھ مخصوص گھر ہوتے تھے جن میں ہمہ وقت کھانا دستیاب ہوتا تھا۔
آگ جلانے کے لئے ماچس میسر نہیں تھی۔ لوگ آتش گیر (ایک چمٹا نما آلہ) آُٹھائے ایک
گھر سے دوسرے گھر اس امید کے ساتھ جاتے تھے کہ شائد آگ جلانے کے لئے کچھ انگارے مل
جائے۔ خوفناک غربت تھی۔
بچے زیادہ پیدا کئے جاتے تھے، شائد اس لئے کہ زیادہ تر
مر جاتے تھے، علاج کے بغیر۔ علاج کیسے ہوتا؟ کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ بچہ کیوں
رو رہا ہے، کیوں دن بدن اس کی صحت گرتی جارہی ہے، کیوں غنودگی طاری ہورہی ہے۔ بس
کچھ دن تڑپتے تھے، اور پھر خاک کے حوالے ہو جاتے تھے۔
جو بچے بچ جاتے تھے ان میں سے کچھ کسی نہ کسی حادثے میں
کام آجاتے، کیونکہ دشوار گزار علاقہ ہے۔ دریاوں اور گلیشیائی نالوں سے گزر کر ہی ایک
مقام سے دوسرے تک جایا جاسکتا تھا۔ شاہراہ قراقرم تو بہت بعد میں تعمیر ہوا۔
جو خوش نصیب بچے بج جاتے، وہ بہت مضبوط ثابت ہوتے تھے۔
عین ڈارون کے نظریہ ارتقا کے مطابق، سروائیول آف دی فٹسٹ۔ اگر یہ بچے حادثات وغیرہ
سے بھی بچ جاتے تو پھر بہت طویل عمر پاتے تھے۔
میں نے بزرگوں سے سُنا ہے کہ اس معاشرے میں صفائی وغیرہ
کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ بالوں میں جوویں رینگتی تھیں، جو کبھی کبھار بالوں سے نکر
کر آستینوں اور اونی کپڑوں کی دسویں تہوں میں بھی چلی جاتی تھیں۔ دو چار افراد
فرصت کے کچھ لمحے پاتے تو کسی جگہ بیٹھ کر باتیں کرتے تھے، اور اپنے یا دوسروں کے
بالوں اور کپڑوں سے جوویں نکالتے تھے۔
یہ ماضی میں زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔ چھ سات دہائیاں
ہی گزری ہونگی۔
1948
تک ہنزہ میں عام تعلیم و تدریس کا کوئی نظام نہیں تھا۔
ایک سکول تھا کریم آباد میں، جس میں صاحبِ استطاعت ہی اپنے بچوں کو پڑھا سکتے تھے۔
بچیوں کی تعلیم کا کوئی سلسلہ نہیں تھا۔
بچیوں کی سات یا آٹھ سال کی عمر میں کم و بیش اسی عمر
کے لڑکوں سے شادی ہوجاتی تھی۔ میری اپنی نانی، جو ابھی حیات ہیں، کی شادی دس سال کی
عمر میں ہوئی تھی۔ دلہنوں کو گود میں اُٹھا کر یا پیٹھ پر بٹھا کر دلہا کے گھر لایا
جاتا تھا۔ اور دلہا اوار دلہن شادی کے بعد
اکٹھے کسی جوہڑ کے کنارے بیٹھ کر ناک سے بہتی رطوبت آستینوں
سے پونچھتے ہوے ریت کے گھروندے بناتے تھے۔ انہیں بہت سالوں تک شادی کا مطلب ہی
سمجھ نہیں آتا تھا۔ ایسی کہانیاں آپ کو ضلع ہنزہ کےہر علاقے میں گھر گھر میں سننے
کو ملیں گی۔
ڈائمنڈ جوبلی سکولوں کی تعمیر کے بعد علاقے میں تعلیمی
انقلاب برپا ہوا۔ جفاکش لوگ تھے۔ تعلیم سے فائدہ اُٹھایا۔ سخت محنت کی۔ امام نے
حکم دیا تو دھیرے دھیرے بچیوں کو بھی پڑھانا شروع کردیا۔ چار یا پانچ دہائیوں میں
علاقے کی کایا پلٹ گئی۔ جس علاقے میں پرائمری اور مڈل پاس شخص استاد بن جاتا تھا،
وہاں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کرنے والوں کی خاصی بڑی تعداد بن گئی۔ بچوں کی شرح
اموات ناقابل یقین حد تک کم ہو گئی ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کسی گھر میں خوارک کی کمی
ہے۔ اگر کچھ گھروں میں ہے بھی تو ان کی مدد کرنے کے لئے سماجی نظام قائم ہے۔
جو بزرگ ابھی حیات ہیں، ان سے پوچھیئے تو نمناک آنکھوں
کے ساتھ سجدہ شکر بجا لاتے ہیں، کیونکہ انہوں نے اپنی زندگیوں کے معیار کو ہزار
گنا بہتر ہوتے دیکھا ہے۔
اپنے علاقے کو صنعی دنیا میں ترقی کرنے والے ممالک کی
طرح بنانے کی خواہش بہت اچھی بات ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان
ممالک کو ترقی کرنے اور آج کے اس مقام تک پہنچنے میں صدیاں لگی ہیں۔
ہمارے علاقوں میں جدید دور کے اپنے مسائل ہیں، اور ہم
سب کو ان مسائل کے حل کے لئے کوشش کرنی چاہیے، اور آواز بھی اُٹھانی چاہیے۔ ہماری
نظریں مستقبل پرمرکوز ہونی چاہیے، لیکن ہمیں اپنے ماضی سے بھی باخبر رہنے کی ضرورت
ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ معاشرے میں ترقی نہیں ہوئی ہے۔ بہت ترقی ہوئی ہے، اور بہت کم
عرصے میں ہوئی ہے۔ معاشروں اور قوموں کی زندگی میں پچاس سال بہت کم ہوتے ہیں۔
ماضی سے باخبر رہیں گے تو معلوم ہوگا کہ کتنا آگے بڑھے
ہیں، اوراپنی رفتار دیکھ کر مزید آگے بڑھنے کا جوش اور ولولہ بھی پیدا ہوگا۔ ورنہ
صرف مایوسی اور ناکامیوں کا احساس ہوگا۔ اور ہم محض مایوسیاں ہی بانٹتے رہیں گے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔