نو منتخب عبوری وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے نئے عہدے پر فائز
ہونے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا کہ وہ خوشی سے قائد ایوان کے عہدے پر براجمان نہیں ہوے ہیں، کیونکہ ملک میں سیاست ایک گالی بن چکی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ
ایوان کا تقدس بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عموماً سیاستدانوں کو کرپٹ سمجھا جاتا ہے۔ ہر سیاستدان پر خرد بْرد، بد کرداری اور سازشی ہونے کے الزامات لگتے ہیں۔انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ڈر کے مارے ، یا مفادات کی خاطر بعض لوگ ان کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں، لیکن دل سے عزت کسی سیاستدان کی بہت کم ہی کی جاتی ہے۔
گاڑیوں کی بڑی بڑی قطاروں کے جلو میں کوئی وزیر یا مشیر یا سرکاری افسر کانوائے کی شکل میں سڑکوں سے گزرتا ہے تو آس پاس زبردستی روکے گئے لوگ بے بسی میں گالی دیتے ہوے کہتے ہیں کہ جتنا بڑا ڈاکو، اتنی ہی لمبی پروٹوکول کے گاڑیوں کی قطاریں۔
سوال یہ ہے کہ سیاستدانوں کا یہ امیج کیسے بنا؟ کیا عوام جھوٹے ہیں؟ کیا عوام قدر ناشناس ہیں؟ کیا کسی سازش کے تحت سیاستدانوں کا امیج خراب کیا جارہا ہے؟ یا پھر واقعی دال میں کچھ کالا ہے؟ ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے لئے ہمیں عام لوگوں اور ان کے منتخب و غیر منتخب حکمرانوں اور رہنماوں کی زندگیوں کے معیار میں فرق کو دیکھنا ہوگا۔
غریب آج بھی بھوکا ہے، جبکہ وزیر لاکھ پتی سے ارب پتی بن چکا ہے۔ غریب اب بھی بارش کے دنوں میں چھت کے نیچے برتن رکھ کر ٹپکنے والے پانی کو سنبھالتے ہوے اپنی قسمت کو کوستا ہے، لیکن اس کا رہنما نکڑکی گلی والے مکان سے نکل کر لندن اور پیرس، دوبئی اور سوئٹرزلینڈ میں کھوٹیوں، فلیٹوں اور جائیدادوں کا مالک بن چکا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عموماً سیاستدانوں کو کرپٹ سمجھا جاتا ہے۔ ہر سیاستدان پر خرد بْرد، بد کرداری اور سازشی ہونے کے الزامات لگتے ہیں۔انہیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ڈر کے مارے ، یا مفادات کی خاطر بعض لوگ ان کی تعریفیں کرتے رہتے ہیں، لیکن دل سے عزت کسی سیاستدان کی بہت کم ہی کی جاتی ہے۔
گاڑیوں کی بڑی بڑی قطاروں کے جلو میں کوئی وزیر یا مشیر یا سرکاری افسر کانوائے کی شکل میں سڑکوں سے گزرتا ہے تو آس پاس زبردستی روکے گئے لوگ بے بسی میں گالی دیتے ہوے کہتے ہیں کہ جتنا بڑا ڈاکو، اتنی ہی لمبی پروٹوکول کے گاڑیوں کی قطاریں۔
سوال یہ ہے کہ سیاستدانوں کا یہ امیج کیسے بنا؟ کیا عوام جھوٹے ہیں؟ کیا عوام قدر ناشناس ہیں؟ کیا کسی سازش کے تحت سیاستدانوں کا امیج خراب کیا جارہا ہے؟ یا پھر واقعی دال میں کچھ کالا ہے؟ ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کے لئے ہمیں عام لوگوں اور ان کے منتخب و غیر منتخب حکمرانوں اور رہنماوں کی زندگیوں کے معیار میں فرق کو دیکھنا ہوگا۔
غریب آج بھی بھوکا ہے، جبکہ وزیر لاکھ پتی سے ارب پتی بن چکا ہے۔ غریب اب بھی بارش کے دنوں میں چھت کے نیچے برتن رکھ کر ٹپکنے والے پانی کو سنبھالتے ہوے اپنی قسمت کو کوستا ہے، لیکن اس کا رہنما نکڑکی گلی والے مکان سے نکل کر لندن اور پیرس، دوبئی اور سوئٹرزلینڈ میں کھوٹیوں، فلیٹوں اور جائیدادوں کا مالک بن چکا ہے۔
غریب کے بچے اب بھی ٹاٹ سکول میں پڑھتے ہیں، جبکہ اس کے منتخب و
غیر منتخب رہنما اور حکمران کے بچے بیکن ہاوس، گرامر سکول اور لاکھوں روپے فیسوں کی مد میں
لینے والے دیگر سکولوں سے نکل کر بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں سیلف فنانس پر پڑھتے ہیں۔ بہت
کم ہیں جو قابلیت کی بنیاد پر سکالرشپ لے کر داخلے کا حق حاصل کرتے ہیں۔
غریب کے گھر میں آج بھی نلکا نہیں لگا ہے، لیکن اس کے منتخب و غیر منتخب رہنماوں اور حکمرانوں کے گھروں میں آبشاریں بنی ہیں، فوارے لگے ہیں، سوئمنگ پولز بنے ہیں۔
غریب سرکاری ہسپتال کے باہر بستر نہ ملنے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتا ہے، لیکن اس کا منتخب وغیر منتخب رہنما اپنے علاج کے لئے سرکاری خرچ پر کبھی لندن، کبھی دْوبئی اور کبھی پیرس پہنچا ہوتا ہے۔
غریب کا بچہ آج بھی نامناسب خوراک یا بھوکے کے باعث غذائیت کی کمی کا شکار ہے، لیکن اس کا منتخب و غیر منتخب رہنما شہنشاوں کی طرح رہتا ہے، اور انہی کی طرح کھاتا پیتا ہے۔
غریب کا ذہین و فطین اور لائق و فائق بچہ پڑھ لکھ کر اچھی نوکری نہیں لے سکتا، لیکن اس کے منتخب و غیر منتخب رہنما اور حکمران کا نالائق انوکھا لاڈلا پیسے، دباو اور اثر و رسوخ کی بنیاد پر بْرے نمبروں کے ساتھ، جعلی ڈگریوں کی طاقت سے، کبھی ڈائریکٹر لگتا ہے تو کبھی کچھ اور۔
غریب کا بچہ بھوک کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہوکر پانچ سال سے پہلے مرجاتا ہے، جبکہ اس کے منتخب و غیر منتخب وڈیروں کی ہزاروں اور لاکھوں ایکڑ کی زمینیں سرسبز و شاداب ہونے اور ٹنوں غلہ اگلنے کے باوجود، غریبوں کے دکھوں کا درمان نہیں کرتی۔ کرب اور درد کا درمان کرنا تو درکنار، بیگار کی شکل میں ان ننگِ جمہوریت حکمرانوں (وڈیروں) کے وسیع وعریض کھیتوں میں کام کرنے والوں کو ان کی محنت کا معاوضہ نہیں ملتا۔ غلاموں کی طرح نسلیں گزرجاتی ہیں وڈیروں اور چوہدریوں اور خانوں کی زمینوں کو سونا بناتے بناتے، لیکن اپنے آنگن میں کھلے پھول خوراک نہ ملنے کی وجہ سے بے وقت و بے موسم مْرجھا جاتے ہیں۔
غریب ڈاکا ڈالتے ہوے پکڑے جاتا ہے تو عوام اسے جلادیتے ہیں، یا پھر پولیس والے اس کی کھال اْتار دیتے ہیں، لیکن اگر اسی غریب کا منتخب و غیر منتخب رہنما ڈاکا ڈالے تو کبھی اس کے اربوں کے قرضے معاف ہوجاتے ہیں، اور کبھی اسے این آر او کی شکل میں بخشش مل جاتی ہے۔
عوام اور حکمران کی معیارِ زندگی میں فرق واضح ہے، اور یہ فرق دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے۔ خلیج بڑھتا ہی جارہا ہے۔
اس حالت کو بدلنے کے لئے ایوان، جس کی تقدیس کے نعرے لگائے جارہے ہیں، نے کیا کیا ہے؟
کچھ خاص نہیں ۔
حکمران اور حکمران بننے کے خواہشمند سیاستدان اقتدار میں آنے کے لئے تمام اقدار جُوتی کی نوک پر رکھتے ہیں ، اور کرپٹ ترین سیاستدانوں کے ساتھ مل کر ملک کو خوشحال بنانے کے خواب بیچتے ہیں۔
رہا ایوان، تو عوام کے منتخب (یا بوگس ووٹوں کی مدد سے وجود میں آنے والے) ایوان کا کام بس یہی رہا ہے کہ صنعت کاروں اور جاگیرداروں کو ریلیف دے، ان کی دولت میں اضافہ کرے، ان کے مفادات کا تحفظ کرے، امیروں کے ٹیکس کم کرے، اور غریبوں پر ہر سال کوئی نیا ٹیکس کسی صورت میں لگا دے۔ اور ہاں، ایوان کا ایک کام یہ بھی رہا ہے کہ اگر کوئی پیٹی بند سیاستدان اپنی کرتوتوں کی وجہ سے قانون کے نرم و نازک شکنجے میں پھنس جائے تو عوامی مینڈیٹ اور ایوان کی تقدیس کے نام پر شور مچائے۔
ایوان اور حکومت، جو جمہوریت کے نام پر عوامی مینڈیٹ کے دعووں کے ساتھ وجود میں آتے ہیں، بلدیاتی انتخابات تک منعقد کروانے حق میں نہیں ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس طرح اختیارات غریبوں اور متوسط طبقوں کے ہاتھوں میں جانے کا "خدشہ" لاحق ہوتا ہے۔ عوام کو بااختیار بنانے کے عمل کی مخالفت اسی ایوان میں بیٹھے نام نہاد جہموری حکمران، جو دراصل جاگیر دار، سرمایہ دار، ساہوکار اور دیگر استحصالی طبقات سے تعلق رکھتے ہیں، کرتے ہیں۔ اس روش میں ہمارا ننھا منا گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ یہاں بھی گزشتہ دہائی سے دوجمہوریت کی دعوے دار پارٹیاں بلدیاتی انتخابات منعقد کر کے اپنے اختیارات (اور مالی وسائل پر اپنی گرفت) سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتے۔
ایسے غیر جمہوری ، غیر انسانی ، اور غیر مہذب ایوان اور ایسے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کے تقدس کا تقاضا عوام سے کیوں کیا جارہا ہے؟ اور ایسے ایوان کی تقدیس پسے ہوے، غیر حکمران، متوسط و غریب طبقات، کے عوام کیوں کرے؟ ایسے ایوان اور حکمرانوں کی حمایت میں عوام کیوں کھڑے ہوں؟
اگر ایوان اور مملکت پاکستان کا تقدس بڑھانا ہے، تو ایوان میں بیٹھے رہنماوں، سیاسی پارٹیوں کے عہدیداروں اور ریاستی وجود کے تمام پُرزوں کو اپنی حرکتیں ٹھیک کرنی ہوگی۔ اپنی ترجیحات درست کرنی پڑے گی۔
جب تک ایوان کے باہر اور اندر بیٹھے حکمران چوری چکاری، اقربا پروری، ڈکیتی، لوٹ مار، بدمعاشی ، بدنیتی ، غریبوں کا استحصال اور ناانصافی سے گریزنہیں کریں گے، ایوان کی عزت بڑھے گی، نہ ہی ایوان کی تکریم میں اضافہ ہوگا۔
یہ مضمون روزنامہ اوصاف (گلگت بلتستان) اور روزنامہ بادشمال میں بھی شائع ہوا ہے۔
غریب کے گھر میں آج بھی نلکا نہیں لگا ہے، لیکن اس کے منتخب و غیر منتخب رہنماوں اور حکمرانوں کے گھروں میں آبشاریں بنی ہیں، فوارے لگے ہیں، سوئمنگ پولز بنے ہیں۔
غریب سرکاری ہسپتال کے باہر بستر نہ ملنے کی وجہ سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتا ہے، لیکن اس کا منتخب وغیر منتخب رہنما اپنے علاج کے لئے سرکاری خرچ پر کبھی لندن، کبھی دْوبئی اور کبھی پیرس پہنچا ہوتا ہے۔
غریب کا بچہ آج بھی نامناسب خوراک یا بھوکے کے باعث غذائیت کی کمی کا شکار ہے، لیکن اس کا منتخب و غیر منتخب رہنما شہنشاوں کی طرح رہتا ہے، اور انہی کی طرح کھاتا پیتا ہے۔
غریب کا ذہین و فطین اور لائق و فائق بچہ پڑھ لکھ کر اچھی نوکری نہیں لے سکتا، لیکن اس کے منتخب و غیر منتخب رہنما اور حکمران کا نالائق انوکھا لاڈلا پیسے، دباو اور اثر و رسوخ کی بنیاد پر بْرے نمبروں کے ساتھ، جعلی ڈگریوں کی طاقت سے، کبھی ڈائریکٹر لگتا ہے تو کبھی کچھ اور۔
غریب کا بچہ بھوک کی وجہ سے بیماریوں کا شکار ہوکر پانچ سال سے پہلے مرجاتا ہے، جبکہ اس کے منتخب و غیر منتخب وڈیروں کی ہزاروں اور لاکھوں ایکڑ کی زمینیں سرسبز و شاداب ہونے اور ٹنوں غلہ اگلنے کے باوجود، غریبوں کے دکھوں کا درمان نہیں کرتی۔ کرب اور درد کا درمان کرنا تو درکنار، بیگار کی شکل میں ان ننگِ جمہوریت حکمرانوں (وڈیروں) کے وسیع وعریض کھیتوں میں کام کرنے والوں کو ان کی محنت کا معاوضہ نہیں ملتا۔ غلاموں کی طرح نسلیں گزرجاتی ہیں وڈیروں اور چوہدریوں اور خانوں کی زمینوں کو سونا بناتے بناتے، لیکن اپنے آنگن میں کھلے پھول خوراک نہ ملنے کی وجہ سے بے وقت و بے موسم مْرجھا جاتے ہیں۔
غریب ڈاکا ڈالتے ہوے پکڑے جاتا ہے تو عوام اسے جلادیتے ہیں، یا پھر پولیس والے اس کی کھال اْتار دیتے ہیں، لیکن اگر اسی غریب کا منتخب و غیر منتخب رہنما ڈاکا ڈالے تو کبھی اس کے اربوں کے قرضے معاف ہوجاتے ہیں، اور کبھی اسے این آر او کی شکل میں بخشش مل جاتی ہے۔
عوام اور حکمران کی معیارِ زندگی میں فرق واضح ہے، اور یہ فرق دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے۔ خلیج بڑھتا ہی جارہا ہے۔
اس حالت کو بدلنے کے لئے ایوان، جس کی تقدیس کے نعرے لگائے جارہے ہیں، نے کیا کیا ہے؟
کچھ خاص نہیں ۔
حکمران اور حکمران بننے کے خواہشمند سیاستدان اقتدار میں آنے کے لئے تمام اقدار جُوتی کی نوک پر رکھتے ہیں ، اور کرپٹ ترین سیاستدانوں کے ساتھ مل کر ملک کو خوشحال بنانے کے خواب بیچتے ہیں۔
رہا ایوان، تو عوام کے منتخب (یا بوگس ووٹوں کی مدد سے وجود میں آنے والے) ایوان کا کام بس یہی رہا ہے کہ صنعت کاروں اور جاگیرداروں کو ریلیف دے، ان کی دولت میں اضافہ کرے، ان کے مفادات کا تحفظ کرے، امیروں کے ٹیکس کم کرے، اور غریبوں پر ہر سال کوئی نیا ٹیکس کسی صورت میں لگا دے۔ اور ہاں، ایوان کا ایک کام یہ بھی رہا ہے کہ اگر کوئی پیٹی بند سیاستدان اپنی کرتوتوں کی وجہ سے قانون کے نرم و نازک شکنجے میں پھنس جائے تو عوامی مینڈیٹ اور ایوان کی تقدیس کے نام پر شور مچائے۔
ایوان اور حکومت، جو جمہوریت کے نام پر عوامی مینڈیٹ کے دعووں کے ساتھ وجود میں آتے ہیں، بلدیاتی انتخابات تک منعقد کروانے حق میں نہیں ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس طرح اختیارات غریبوں اور متوسط طبقوں کے ہاتھوں میں جانے کا "خدشہ" لاحق ہوتا ہے۔ عوام کو بااختیار بنانے کے عمل کی مخالفت اسی ایوان میں بیٹھے نام نہاد جہموری حکمران، جو دراصل جاگیر دار، سرمایہ دار، ساہوکار اور دیگر استحصالی طبقات سے تعلق رکھتے ہیں، کرتے ہیں۔ اس روش میں ہمارا ننھا منا گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ یہاں بھی گزشتہ دہائی سے دوجمہوریت کی دعوے دار پارٹیاں بلدیاتی انتخابات منعقد کر کے اپنے اختیارات (اور مالی وسائل پر اپنی گرفت) سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتے۔
ایسے غیر جمہوری ، غیر انسانی ، اور غیر مہذب ایوان اور ایسے ایوانوں میں بیٹھے حکمرانوں کے تقدس کا تقاضا عوام سے کیوں کیا جارہا ہے؟ اور ایسے ایوان کی تقدیس پسے ہوے، غیر حکمران، متوسط و غریب طبقات، کے عوام کیوں کرے؟ ایسے ایوان اور حکمرانوں کی حمایت میں عوام کیوں کھڑے ہوں؟
اگر ایوان اور مملکت پاکستان کا تقدس بڑھانا ہے، تو ایوان میں بیٹھے رہنماوں، سیاسی پارٹیوں کے عہدیداروں اور ریاستی وجود کے تمام پُرزوں کو اپنی حرکتیں ٹھیک کرنی ہوگی۔ اپنی ترجیحات درست کرنی پڑے گی۔
جب تک ایوان کے باہر اور اندر بیٹھے حکمران چوری چکاری، اقربا پروری، ڈکیتی، لوٹ مار، بدمعاشی ، بدنیتی ، غریبوں کا استحصال اور ناانصافی سے گریزنہیں کریں گے، ایوان کی عزت بڑھے گی، نہ ہی ایوان کی تکریم میں اضافہ ہوگا۔
یہ مضمون روزنامہ اوصاف (گلگت بلتستان) اور روزنامہ بادشمال میں بھی شائع ہوا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔