لواری ٹنلز کے اطراف میں ابھی سڑکوں کی تعمیر مکمل ہونی ہے۔ لیکن بہر حال، اس اہم منصوبے کا آج وزیر اعظم نوز شریف کے ہاتھوں افتتاح چترال کی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
گلگت میں زیرِ تعلیم ہم جماعت دوستوں، جونئیرز اور اساتذہ کے ذریعے چترال کے ساتھ محبت اور خلوص کا جو ذاتی رشتہ قائم ہوا تھا، وہ روز بروز مضبوط تر ہوتا جارہا ہے۔
شروع شروع میں انہی کی زبانی اہلیانِ چترال کی سفری مشکلات کے بارے میں معلوم ہوا۔
سردیوں کے موسم میں برفباری کی وجہ سے لواری پہاڑ کے اوپر سے گزرنے والی واحد کچی اور انہائی دشوار گزار، خطرناک، سڑک بند ہوجاتی تھی۔ جس کے بعد چترال کے لاکھوں عوام وخواص ضلعے میں محصور ہوجاتے تھے۔ ہوائی سفر پر انحصار کرنا خودفریبی کے مترادف تھا، اور کم آمدنی والے طبقات اس غیر مستقل سہولت سے فائدہ اُٹھانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ ان حالات میں چترالیوں کو اپنے ملک کے شہر پشاور پہنچنے کے لئے پہلے افغانستان جانا پڑتاتھا۔
مجھے یاد ہے کہ میرے ہم جماعت کم از کم ایک دفعہ سردیوں کی چھٹیاں گزار کر براستہ افغانستان پشاور پہنچنے کے بعد بالآخر گلگت پہنچے تھے۔
شہید ذولفیقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہونے والا لواری ٹنل منصوبہ 42 سالوں کے بعد مکمل ہوگیا ہے۔ ان بیالیس سالوں کے دوران یہ منصوبہ بارہا تعطل کا شکار رہا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں البتہ کام میں تیزی آئی، کیونکہ انہوں نے سرکاری خزانے کے منہ اس اہم قومی منصوبے کے لئے کھول دئیے تھے۔ ٹنلز سے جُڑی سڑکوں کی تعمیر کے بعد چترال کے عوام وخواص کو سفر کی آسانیاں تو میسر ہونگی ہی، ساتھ ہی ساتھ معیشت کی ترقی کے راستے بھی مزید کشادہ ہوجائیں گے۔
پاک چین اقتصادی راہداری کا ایک راستہ گلگت بلتستان کے ضلع غذر سے ہوتا ہوا براستہ چترال اپر دیر میں داخل ہوگا اور آگے چکدرہ تک پہنچے گا، جس کے معاشی اثرات بہت جلد نمودار ہونگے۔ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تجارتی اور سفری تعلقات استوار کرنے کی منزل بھی اب قریب نظر آرہی ہے۔
اس اہم خوشی کے موقعے پر میں اپنے چترالی بزرگوں اور دوستوں کو مبارکباد پیش کرنا چاہتاہوں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔