Wednesday, July 12, 2017

برتھ ڈے کیک

کل رات بیٹے کے برتھ ڈے کے لئے کیک خریدنے گیا۔ بیکری کے پاس پہنچا تو اندر سے (میرے) ایک آواز آئی، "ابے!! کیوں خرید رہا ہے؟ اکیلے میں کیا کیک کاٹے گا؟ کوئی فائدہ؟ کتنا کھائے گا؟ خراب ہو جائے گا سارا"۔ آواز میں وزن تھا۔ میں کچھ دیر کے لئے رُک گیا۔ 
ابھی میں سوچنے کی کوشش ہی کرنے لگا تھا کہ اندر سے ایک اور آواز آئی۔ "خرید لے کنجوس۔ پیسے بچانے کے لئے ہزار فلسفے نہ جھاڑ۔"

مجھے شرمندگی سی محسوس ہونے لگی۔ اورمیرا خیال ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے میرے چہرے پر سرخی مائل رنگ بھی پھیل گیا، مارے حیا کے۔ وثوق سے البتہ نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ رات اندھیری تھی، اور میں فوراً سے سیلفی لے کر اس لمحے کو محفوظ بھی نہ کرپایا۔

خیر، کیک خریدنے کا فیصلہ ہوگیا۔ نام لکھوایا۔ ہیپی برتھ ڈے لکھوایا۔ 3 سال لکھوانے کا کہا، بندے نے صرف تین لکھا۔ میں نے کہا کوئی بات نہیں۔ 

علامتیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔

کیک لے کر گھر آگیا، اور اسے فریج میں رکھ دیا، کیونکہ ابھی جولائی کی دس تاریخ تھی۔ اور میرا آیان 11 جولائی کو وارد ہوا تھا۔ بارہ بجے کا انتظار کرنے لگا۔

فیس بک پر دوستوں کے والز دیکھ دیکھ کر وقت گزرہی گیا۔ ہوش آگیا تو ساڑھے بارہ بجنے والے تھے۔
فریج سے کیک نکال کر کاٹنے لگا تو یاد آیا کہ موم بتیاں تو میں لایا ہی نہیں ہوں۔ خود کو چند ثانیوں کے لئے کوسا، اور پھر بغیر موم بتیوں کے ہی کیک کاٹنے کا فیصلہ کرلیا۔

عجیب سماں تھا۔ گھر میں میں اکیلا۔ کیک میرے سامنے، چاقو میرے ہاتھ میں، لیکن نہ آیان سامنے تھا، نہ ہی گھر کے دوسرے لوگ۔ بس کچھ چھپکلیاں تھیں، جو دیوار سے چپکے میری بے بسی کی تصویریں لے رہی تھیں۔ شائد یہ چھپکلیاں اپنی کمیونٹی کے جرنلسٹس ہونگے، اور آج میری تصویریں ان کے قومی اخبار میں شائع ہوئیں ہونگی۔ (اگر ان دیواری چھپکلیوں میں سے کوئی یہ تحریر پڑھ رہا ہے تو پلیز فیس بک پر مجھے وہ تصویریں ان باکس کردیں۔ مہربانی)

اکیلا کیک کاٹنا ایک کٹھن عمل ہے۔ کیک کاٹو تو تالیاں نہیں بجا سکتے، اور تالیاں بجاتے ہوے کیک نہیں کاٹا جاسکتا۔ پھریہ بھی کہ کیک کاٹنےکے بعد ایک ٹکڑا کسی اور کو کھلانے کی بجائے خود کو ہی کھلانا پڑتا ہے۔ اور کیک ملنے کے لئے بھی اپنا ہی چہرہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ نیز، برتھ ڈے گیت گانے والے بھی نہیں ہوتے۔ بہت نازک صورتحال ہوتی ہے، اور تنہائی کا احساس شدت سے غالب آجاتا ہے۔

انہی جذبات کے زیرِ اثر میری آنکھوں سے آنسو کے سیلاب اُمڈ آئے۔ اور میں زارو قطار رونے لگا۔ ہچکیاں بھی آئیں۔ آنکھیں سُرخ ہوگئیں (میں نے شیشے میں خود دیکھا تھا)۔

ابھی میں ہچکیوں کو اور آنسووں کے سیلاب کو سنبھالنے کی کوشش ہی کررہاتھا کہ اچانک، کسی گلیشیائی جھیل کے پھٹنے کی وجہ سے نکلنے والے سیلابی ریلے کی طرح، ناک سے بھی ایک سیلاب اُمڈ آیا۔ سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا، اور سارے کیک کا ستیاناس ہوگیا۔

سبق: اگر اکیلے اکیلے کسی کا برتھ ڈے کیک کاٹنا ہو، تو زیادہ جذباتی مت بنو۔ اور اگر جذباتی بننا ہی ہے، تو براہِ کرم ٹشو پیپر، رومال، یا تولیہ ساتھ رکھو۔ تاکہ کیک کا بیڑا غرق نہ ہو۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔