کراچی کمپنی میں واقع روہتاس روڑ پر 36 نمبر کی گلی کے نزدیک پہنچ کر ہم موڑ مڑنے ہی والے تھے کہ اچانک ایک انتہائی تیز رفتار سلور کلر کی بڑی سی پراڈو(ٹی زیڈ) پیچھے سے آگئی، اور ہماری چھوٹی سی بیچاری ٹیکسی کو تقریباً روندتے ہوے خطرناک طریقے سے بائیں جانب مڑ گئی۔
بوڑھا ٹیکسی ڈرائیوربوکھلا گیا۔ گاڑی کو سنبھالتے ہوے پراڈو سواروں کی ماوں اور بہنوں کو موٹی اور فحش گالیاں دیں، اور ساتھ ہی دونوں ہاتھ ہوا میں اچھال کر گویا گالیوں کی شدت میں اضافہ کیا۔
لینڈ کروزر والے ہماری گالیوں کی رینج سے آگے نکل گئے تھے۔ بلکہ میرا گمان ہے کہ ہم چھوٹے لوگوں کی بوکھلاہٹ پر ٹی زیڈ میں سوار بندوں نے زوردار قہقہہ ضرور لگایا ہوگا۔
"بڑے لوگ ہیں۔ بڑی گاڑیاں ہیں۔ ان کے نخرے کم نہیں ہونگے"، میں نے کہا۔
"لیکن بیٹا، آخر کب تک؟ اب پاکستان کو ترقی کرنی چاہیے"، پسینے میں شرابور بوڑھا ٹیکسی ڈرائیور فلسفیانہ انداز میں گویا ہوا۔
واقعی، ہمیں ترقی کی ضرورت ہے۔ فکری، تہذیبی اور تمدنی ترقی کی۔
مادی ترقی ایک سیڑھی ہوسکتی ہے، منزل نہیں۔
بوڑھا ٹیکسی ڈرائیوربوکھلا گیا۔ گاڑی کو سنبھالتے ہوے پراڈو سواروں کی ماوں اور بہنوں کو موٹی اور فحش گالیاں دیں، اور ساتھ ہی دونوں ہاتھ ہوا میں اچھال کر گویا گالیوں کی شدت میں اضافہ کیا۔
لینڈ کروزر والے ہماری گالیوں کی رینج سے آگے نکل گئے تھے۔ بلکہ میرا گمان ہے کہ ہم چھوٹے لوگوں کی بوکھلاہٹ پر ٹی زیڈ میں سوار بندوں نے زوردار قہقہہ ضرور لگایا ہوگا۔
"بڑے لوگ ہیں۔ بڑی گاڑیاں ہیں۔ ان کے نخرے کم نہیں ہونگے"، میں نے کہا۔
"لیکن بیٹا، آخر کب تک؟ اب پاکستان کو ترقی کرنی چاہیے"، پسینے میں شرابور بوڑھا ٹیکسی ڈرائیور فلسفیانہ انداز میں گویا ہوا۔
واقعی، ہمیں ترقی کی ضرورت ہے۔ فکری، تہذیبی اور تمدنی ترقی کی۔
مادی ترقی ایک سیڑھی ہوسکتی ہے، منزل نہیں۔
No comments:
Post a Comment
Your comment is awaiting moderation.