سماجی ترقی یقینی بنانے کے لئے مضبوط اداروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور مضبوط اداروں کے قیام کے لئے مستحکم، مسلسل اور مربوط ارادے ناگزیر ہیں۔
زیر نظر تصویر میں ہمارے گاوں کے بزرگ اور جوان سیمنٹ کی ایک بیم (ستون) کو اُٹھا کر زیر تعمیر عمارت کے اوپر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ عمارت اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کی گئی تھی۔ گاوں کے لوگوں نے مزدوری بھی بغیر معاوضے کے کی۔ زمین خریدنے کے لئے پیسے بھی خود ہی اکٹھے کئے۔ کچھ لوگوں نے زمین کا عطیہ بھی دیا۔
آج یہ الامین ماڈل سکول کے نام سے محدود وسائل کے ساتھ ہمارے علاقائی پس منظر میں بہترین تعلیمی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔
الامین کے سینکڑوں فارغ التحصیل طلبہ و طالبات پاکستان کے کونے کونے کے علاوہ دنیاکے مختلف ممالک میں پھیلے تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا پھر پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف ہیں۔
سکول کو قائم ہوے پچیس سال گزر چکےہیں۔
مجھے اس سکول میں پڑھنے کا موقع نہیں ملا، لیکن اس کی تعمیر میں ایک بچے کی حیثیت سے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوے کام کرنے، لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے، کا شرف ضرور حاصل رہا ہے۔
سوچتا ہوں کہ ہمارے بزرگ، جن میں سے آئے روز کسی کی موت واقع ہوتی ہے، ان تنگ گھاٹیوں اور وادیوں میں دنیا سے کٹے رہنے کے باوجود بھی وسیع النظر، دور اندیش اور یکجا تھے۔ انہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود ایسے ادارے بنائے جن سے آنے والی کئی نسلیں مستفید ہونگی۔
ان بزرگ رضاکاروں اور رہنماوں کے نام سلامِ عقیدت۔
زیر نظر تصویر میں ہمارے گاوں کے بزرگ اور جوان سیمنٹ کی ایک بیم (ستون) کو اُٹھا کر زیر تعمیر عمارت کے اوپر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ عمارت اپنی مدد آپ کے تحت تعمیر کی گئی تھی۔ گاوں کے لوگوں نے مزدوری بھی بغیر معاوضے کے کی۔ زمین خریدنے کے لئے پیسے بھی خود ہی اکٹھے کئے۔ کچھ لوگوں نے زمین کا عطیہ بھی دیا۔
آج یہ الامین ماڈل سکول کے نام سے محدود وسائل کے ساتھ ہمارے علاقائی پس منظر میں بہترین تعلیمی خدمات سرانجام دے رہا ہے۔
الامین کے سینکڑوں فارغ التحصیل طلبہ و طالبات پاکستان کے کونے کونے کے علاوہ دنیاکے مختلف ممالک میں پھیلے تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا پھر پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف ہیں۔
سکول کو قائم ہوے پچیس سال گزر چکےہیں۔
مجھے اس سکول میں پڑھنے کا موقع نہیں ملا، لیکن اس کی تعمیر میں ایک بچے کی حیثیت سے بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوے کام کرنے، لہو لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے، کا شرف ضرور حاصل رہا ہے۔
سوچتا ہوں کہ ہمارے بزرگ، جن میں سے آئے روز کسی کی موت واقع ہوتی ہے، ان تنگ گھاٹیوں اور وادیوں میں دنیا سے کٹے رہنے کے باوجود بھی وسیع النظر، دور اندیش اور یکجا تھے۔ انہوں نے تمام تر مشکلات کے باوجود ایسے ادارے بنائے جن سے آنے والی کئی نسلیں مستفید ہونگی۔
ان بزرگ رضاکاروں اور رہنماوں کے نام سلامِ عقیدت۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔