Tuesday, March 14, 2017

ریاست، مامتا اور ہم

ریاست اگر ماں ہے تو شہری ریاست کے بچے ہیں۔ اگر ماں بچوں کے وزن کے حساب سے وسائل بانٹنا شروع کرے تو کمزور ترین کے حصے میں کچھ بھی نہیں آئے گا، اور جو سب سے زیادہ قوی و توانا ہے، وہ سارے وسائل کا حقدار کہلائے گا۔
ہم گلگت بلتستان کے باسی بھی ایک ریاست کا حصہ ہیں، اور اپنے حقوق کی خاطر عرصہ دراز سے سرگرداں ہیں۔ ہماری طرح دیگر صوبوں میں بھی چھوٹے چھوٹے بچے موجود ہیں۔
ہم کم وزن بچوں کو ایسا لگتا ہے کہ ماں موٹوں پر زیادہ توجہ دے رہی ہے، حالانکہ زیادہ خیال داری کی ضرورت ہم ناتوانوں کو ہے۔

ہم ماں کی توجہ اپنی حالت زار کی طرف دلاتے ہیں تو ماں ڈنڈا لے کر مارنے دوڑتی ہے، کہتی ہے تمیں خاندان کی عزت اور استحکام کی کوئی پرواہ نہیں ہے، خودغرضی کا شکار ہو، اور پڑوس میں رہنے والوں کے ساتھ مل کر اپنے ہی گھر کے خلاف سازش کر رہے ہو۔ حالانکہ ہم تو ماں کی محبت اور اپنائت کے بھوکے ہوتے ہیں، اور چیخ کر ان کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ توجہ مل جاتی ہے، لیکن محبت نہیں ملتی۔


ہونا تو یہ چاہیےکہ ماں تمام بچوں کو یکساں پیار، محبت اور توجہ کا مستحق سمجھے اور بچوں کی ضروریات کے مطابق وسائل بانٹے، لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ اور نہ ہی مستقبل قریب میں کوئی امید کی کرن نظر آرہی ہے۔


مردم شماری کی ہی مثال لییجئے۔ چھوٹے بچوں کی آوازوں (زبانوں) کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر نالہ لئی میں بہادیاگیا ہے، جبکہ بڑے بچوں کی آوازوں کو پوری توجہ سے سنا جارہا ہے۔

کیا ماں سے منصفی کی توقع رکھنا بے وقوفی ہے؟

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔