کل رات یوٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھنے کا موقع ملا۔ کیپشن دلچسپ تھا، اسلئے پلے کا بٹن دبائے بغیر نہ رہ پایا۔ عنوان تھا ، "سو سال کے بعد انسان کس شکل میں ہونگے ؟ "
اس ٹیڈ ٹاک پیشکش کا اسی تناظر میں بنیادی سوال یہ تھا کہ "کیا انسانی جسم کو ارتقا دینا اخلاقی طور پر درست ہے؟"
مجھے یہ عنوان اسلئے بھی دلچسپ لگا کیونکہ اس میں انسان کےجائے رہائش یعنی زمین کی نہیں بلکہ انسانی جسم یا دوسرے الفاظ میں بنی نوعِ انسان کے مستقبل کی بات کی گئی تھی۔
آپ یہ ویڈیو اس لنک پر دیکھ سکتےہیں۔
میڈیکل سائنس بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ اب ہمارے ارد گرد بہت سارے ایسے انسان ملتے ہیں جن کے جسم کے اندر لوہے یا پلاسٹک کے مصنوعی آلات/پرزے بطور اعضا لگے ہوے ہیں، اور ان آلات کی مدد سے وہ بہت سالوں سے زندہ رہ رہے ہیں۔
پیس میکر (یا دھڑکن ساز مشین) کی مدد سے زندہ رہنے والی ایک خاتون سے میں بذاتِ خود واقف ہوں۔ اسی طرح ایک دوست ہے جن کے بازو میں لوہے کا راڈ لگاہواہے، جس کی مدد سے وہ اپنے بازو کو آزادانہ حرکت دے سکتے ہیں۔ کمپیوٹر کی بدولت ایسی ایجادات بھی ممکن ہوئی ہیں جن کی مدد سے مشینی ہاتھ قدرتی ہاتھ جتنی حساس بن جاتی ہیں۔ عالمی سطح پر بہت سارے معروف افراد ہیں جو بائیونک (مشینی) ٹانگیں، ہاتھ یا بازو لگائے پھرتے ہیں۔ بہت سارے ایسے افراد بھی ہیں جو بائیونک ( یعنی برقِ حیاتی سے چلنے والی) ٹانگوں کی مددسے اولمپک مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔
مختصر یہ کہ دھیرے دھیرے ہمارے اجسام میں ایسے مصنوعی (لیبارٹری) میں تیار شدہ آلات فٹ ہورہے ہیں جو ہماری کمزوریوں کو دور کرنے میں ہماری مدد کر رہے ہیں۔
کچھ سائینسدان کہتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب ہمارے اذہان میں کچھ مائیکرو پروسیسسرز لگیں گے اور ہم اپنے خیال یا فکر کی طاقت سے بغیر ہلے جلے بہت سارے کام کرنے لگیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قدرتی طور پر پائے جانے والے اور لیبارٹریز میں تیار شدہ متبادل پرزوں اور اعضا کے آپس میں ملنے سے ہماری جسم کی صلاحیتیں بڑھ رہی ہیں۔ ہماری کمزوریاں دور ہو رہی ہیں۔
اب تک تو حادثے کا شکار ہونے والے یا کسی مرض میں مبتلاہونے والے افراد مشینی آلات اور اعضا استعمال کررہے ہیں۔ ان آلات اور اعضا کی کارکردگی بڑھتی جارہی ہے۔ کیا کوئی وقت ایسا بھی ہوگا جب ہوگ اپنی مرضی کے مطابق بہتر، مضبوط بننے کے لئے یہ آلات خرید کر لگوائیں گے؟
میکانکی سائنس کے ساتھ ساتھ جینیاتی سائنس بھی کافی ترقی یافتہ ہو چکی ہے۔ سائنسی طور پر یہ ممکن ہے کہ اب پیدائش سے قبل ہی انسان کی جینیاتی ترکیب میں ہلکی پھلکی تبدیلیاں لا کر موذی امراض کے خطرات دور کیے جائیں۔ ایسے بہت سارے تجربات ہوے ہیں، اور ہو رہے ہیں۔
کسی حد تک ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل کا انسان ہمارے جیسا نہیں ہوگا۔ صرف فکری اور تہذیبی سطح پر نہیں، بلکہ جسمانی ساخت اور ترکیب کے طور پر بھی۔
ایک ایسا مستقبل جس میں قدرتی اور مشینی اعضا کی مدد سے ایک بہتر سمجھ بوجھ، صلاحیت اور قوت مدافعت رکھنے والا انسان تخلیق کریں بہت دلچسپ ہے۔ ایسے مستقبل سے ہم میں سے بہت ساروں کو خوف بھی آسکتا ہے۔ کیونکہ ہم اس کے عادی نہیں ہیں۔ ہماری طرزِ فکر اور طرزِ حیات ایسے مظاہر کا عادی نہیں ہے۔
کچھ ماہرین سوال کرتے ہیں کہ کیا انسانی اعضا اور مشینی آلات کے ادغام اور انضمام سے ایک نئی نوع کا انسان تیار کرنا اخلاقی طور پر درست ہے؟ یعنی، انسان کے قدرتی اعضا اور لیبارٹری میں تیار شدہ آلات کی مدد سے جو مخلوق تیار ہوگا، کیا وہ ہمارے جیسا ہی انسان ہوگا؟ اس کی صلاحیتیں کیسی ہونگی؟ اس کی طرزِ فکرکیا ہوگی؟ کیا وہ اخلاق اور اقدار کا قائل ہوگا؟
ایسی ٹیکنالوجی تک رسائی کن کی ہوگی؟ کیا ہر شخص یہ سہولتیں آسانی سے حاصل کر سکے گا؟ یا صرف مالدار افراد ہی اپنے اولاد کو دیگر انسانوں کی نسبت مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجینس) دلا سکیں گے؟
یہ بہت اہم سوالات ہیں، کیونکہ آج سے سو یا ڈیڑھ سو یا پھر دس ہزار سال بعد عین ممکن ہے کہ ایسے بہت سارے انسان ہونگے جو جدید ترین اور ترقی یافتہ مشینی اعضا اور مصنوعی ذہانت تک رسائی کی وجہ سے شائد ہم سے زیادہ صلاحیتوں کے حامل ہونگے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ایسے افراد کے اقدار کیا ہونگے؟ کیا وہ ہم اس دور کے انسانوں جیسے احساسات رکھیں گے؟ ایسا تو نہیں ہوگا کہ مشینی صلاحیتوں اور مصنوعی ذہانت سے لیس یہ مستقبل کے انسان دیگر انسانوں کو اپنا غلام بنائیں گے؟
اگر یہ مشینی صلاحیتوں اور مصنوعی ذہانت سے لیس افراد انسانی مستقبل کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں تو ایسی صورتحال میں کیا طبی اور جینیاتی ٹیکنالوجی کے حصول کی کوششیں جاری رکھنی چاہیے؟
سائنسدان/فلسفی کہتے ہیں کہ مستقبل کے چیلینجز کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم سے بہتر قوت مدافعت اور صلاحتییں رکھنے والے انسانوں کی ضرورت ہے۔ اس لئے نوع انسانی کی بقا کے لئے طب اور ٹیکنالوجی کا انضمام لازمی ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک ناگزیر ارتقائی عمل ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ فی الحال اس ضمن میں صرف مفروضے ہی ہیں۔ یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ مستقبل کی تصویر بہت واضح نہیں ہے۔
لیکن میرے خیال میں یہ ناممکنات میں سے نہیں ہے۔ تیس سال پہلے تک موبائل فونز اور انٹرنیٹ کا تصور تک عام آدمی کو نہیں تھا۔ لیکن آج ہم ان حیرت انگیز ٹکنالوجیز سے مستفید ہورہے ہیں۔
اس ٹیڈ ٹاک پیشکش کا اسی تناظر میں بنیادی سوال یہ تھا کہ "کیا انسانی جسم کو ارتقا دینا اخلاقی طور پر درست ہے؟"
مجھے یہ عنوان اسلئے بھی دلچسپ لگا کیونکہ اس میں انسان کےجائے رہائش یعنی زمین کی نہیں بلکہ انسانی جسم یا دوسرے الفاظ میں بنی نوعِ انسان کے مستقبل کی بات کی گئی تھی۔
آپ یہ ویڈیو اس لنک پر دیکھ سکتےہیں۔
پیس میکر (یا دھڑکن ساز مشین) کی مدد سے زندہ رہنے والی ایک خاتون سے میں بذاتِ خود واقف ہوں۔ اسی طرح ایک دوست ہے جن کے بازو میں لوہے کا راڈ لگاہواہے، جس کی مدد سے وہ اپنے بازو کو آزادانہ حرکت دے سکتے ہیں۔ کمپیوٹر کی بدولت ایسی ایجادات بھی ممکن ہوئی ہیں جن کی مدد سے مشینی ہاتھ قدرتی ہاتھ جتنی حساس بن جاتی ہیں۔ عالمی سطح پر بہت سارے معروف افراد ہیں جو بائیونک (مشینی) ٹانگیں، ہاتھ یا بازو لگائے پھرتے ہیں۔ بہت سارے ایسے افراد بھی ہیں جو بائیونک ( یعنی برقِ حیاتی سے چلنے والی) ٹانگوں کی مددسے اولمپک مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔
مشینی بازو تیزی سے ارتقاپذیر ہے۔ بہتر ٹیکنالوجی کی مدد سے اب یہ بازو کسی حد تک انسانی قدرتی بازو کی طرح کام کرسکےہیں۔ |
کچھ سائینسدان کہتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب ہمارے اذہان میں کچھ مائیکرو پروسیسسرز لگیں گے اور ہم اپنے خیال یا فکر کی طاقت سے بغیر ہلے جلے بہت سارے کام کرنے لگیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قدرتی طور پر پائے جانے والے اور لیبارٹریز میں تیار شدہ متبادل پرزوں اور اعضا کے آپس میں ملنے سے ہماری جسم کی صلاحیتیں بڑھ رہی ہیں۔ ہماری کمزوریاں دور ہو رہی ہیں۔
برطانوی شہری جس کا ایک بازو مصنوعی ہے |
میکانکی سائنس کے ساتھ ساتھ جینیاتی سائنس بھی کافی ترقی یافتہ ہو چکی ہے۔ سائنسی طور پر یہ ممکن ہے کہ اب پیدائش سے قبل ہی انسان کی جینیاتی ترکیب میں ہلکی پھلکی تبدیلیاں لا کر موذی امراض کے خطرات دور کیے جائیں۔ ایسے بہت سارے تجربات ہوے ہیں، اور ہو رہے ہیں۔
کسی حد تک ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مستقبل کا انسان ہمارے جیسا نہیں ہوگا۔ صرف فکری اور تہذیبی سطح پر نہیں، بلکہ جسمانی ساخت اور ترکیب کے طور پر بھی۔
ایک ایسا مستقبل جس میں قدرتی اور مشینی اعضا کی مدد سے ایک بہتر سمجھ بوجھ، صلاحیت اور قوت مدافعت رکھنے والا انسان تخلیق کریں بہت دلچسپ ہے۔ ایسے مستقبل سے ہم میں سے بہت ساروں کو خوف بھی آسکتا ہے۔ کیونکہ ہم اس کے عادی نہیں ہیں۔ ہماری طرزِ فکر اور طرزِ حیات ایسے مظاہر کا عادی نہیں ہے۔
کیا مستقبل کے انسان ایسے ہونگے؟ |
ایسی ٹیکنالوجی تک رسائی کن کی ہوگی؟ کیا ہر شخص یہ سہولتیں آسانی سے حاصل کر سکے گا؟ یا صرف مالدار افراد ہی اپنے اولاد کو دیگر انسانوں کی نسبت مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجینس) دلا سکیں گے؟
یہ بہت اہم سوالات ہیں، کیونکہ آج سے سو یا ڈیڑھ سو یا پھر دس ہزار سال بعد عین ممکن ہے کہ ایسے بہت سارے انسان ہونگے جو جدید ترین اور ترقی یافتہ مشینی اعضا اور مصنوعی ذہانت تک رسائی کی وجہ سے شائد ہم سے زیادہ صلاحیتوں کے حامل ہونگے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ایسے افراد کے اقدار کیا ہونگے؟ کیا وہ ہم اس دور کے انسانوں جیسے احساسات رکھیں گے؟ ایسا تو نہیں ہوگا کہ مشینی صلاحیتوں اور مصنوعی ذہانت سے لیس یہ مستقبل کے انسان دیگر انسانوں کو اپنا غلام بنائیں گے؟
اگر یہ مشینی صلاحیتوں اور مصنوعی ذہانت سے لیس افراد انسانی مستقبل کے لئے خطرہ بن سکتے ہیں تو ایسی صورتحال میں کیا طبی اور جینیاتی ٹیکنالوجی کے حصول کی کوششیں جاری رکھنی چاہیے؟
سائنسدان/فلسفی کہتے ہیں کہ مستقبل کے چیلینجز کا مقابلہ کرنے کے لئے ہم سے بہتر قوت مدافعت اور صلاحتییں رکھنے والے انسانوں کی ضرورت ہے۔ اس لئے نوع انسانی کی بقا کے لئے طب اور ٹیکنالوجی کا انضمام لازمی ہے۔ ان کے مطابق یہ ایک ناگزیر ارتقائی عمل ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ فی الحال اس ضمن میں صرف مفروضے ہی ہیں۔ یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ مستقبل کی تصویر بہت واضح نہیں ہے۔
لیکن میرے خیال میں یہ ناممکنات میں سے نہیں ہے۔ تیس سال پہلے تک موبائل فونز اور انٹرنیٹ کا تصور تک عام آدمی کو نہیں تھا۔ لیکن آج ہم ان حیرت انگیز ٹکنالوجیز سے مستفید ہورہے ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔