دو ہفتے قبل آبائی گاؤں گلمت ہنزہ جانے کا موقع ملا جو کہ ایک پہاڑی علاقہ ہے۔ وہاں غضب کی سردیاں پڑتی ہیں، سو سردی کو پچھاڑنے کی پوری تیاری کر کے وہاں گیا۔ بزرگ کہتے ہیں کہ ماضی میں یہاں برفباری کا یہ عالم تھا کہ لوگ کمر تک برف میں دھنس جاتے تھے۔
میں نے برفباری کی امید لیے تصویر کشی کی نیت سے ایک کیمرہ اُٹھائے گاؤں کا رخ کیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ سردی کے اس موسم میں برفباری تو ایک طرف، بادام اور چیری کے پھول دیکھنے کو ملیں گے۔
عموماً خوشیاں لانے والے یہ پھول علاقے کے لوگوں کے لیے اب حیرت اور پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ دسمبر اور جنوری میں یخ بستہ برفانی صحراؤں میں پھولوں کا کھلنا چہ معنی دارد؟ جس موسم میں گزشتہ چند سالوں تک ہماری زمین برف سے ڈھکی ملتی تھی، ان مہینوں میں جشنِ بہاراں منایا جائے؟
بات صرف ہمارے گاؤں کی نہیں، بلکہ قرب و جوار کے دیہات اور وادیاں بھی اس "خزانی بہار" سے متاثر ہوئے ہیں۔ قریب واقع ضلع نگر کے بعض علاقوں میں بھی سفید اور سرخ پھول درختوں پر لگے ہیں۔ ضلع غذر اور اسکردو کے بعض علاقوں سے بھی پھول کھلنے کی خبریں مل رہی ہیں۔
سردیوں میں پھول کیوں کھلے ہیں؟ معاملہ کیا ہے؟ کسی کو نہیں معلوم۔ کوئی کہتا ہے کہ صنعتی سرگرمیوں کی وجہ سے ماضی کی نسبت زمین کا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے، اس لیے درختوں پر پھول کھل گئے ہیں۔ موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلی کی بازگشت جابجا سنائی دیتی ہے۔ اس صورتحال کا واضح ادراک کسی کو نہیں ہے۔ حکومتی اور غیر حکومتی ادارے خاموش ہیں، سوشل میڈیا پر بے نتیجہ مباحث چل رہے ہیں۔
عالمی سطح پر بھی درختوں پر خزاں میں پھول کھلنے جیسے غیر معمولی رجحانات دیکھے گئے ہیں۔ بالٹیمور سن نامی اخبار میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے درختوں کی بڑھوتری تیز ہو جاتی ہے۔ 2013 میں نیشنل جیوگرافک میں شائع ایک رپورٹ میں بہار کی جلد آمد کو عالمی سطح پر موسمیاتی تبدیلی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اس غیر معمولی تبدیلی سے مقامی زمیندار پریشان ہیں کیوں کہ گلگت بلتستان، چترال، کوہستان اور دیگر پہاڑی علاقوں میں موجود انسانی آبادیاں پہاڑوں کے دامن میں گلیشیئرز کے درمیان واقع ہیں۔ اگر درجہ حرارت واقعی بڑھ رہا ہے اور اسی طرح بڑھتا گیا تو گلیشیئرز کے پگھلنے اور برفباری نہ ہونے، یا کم ہونے، سے علاقائی اور ملکی سطح پر جو ہولناک تباہی پھیلے گی اس کا اندازہ فی الحال نہیں لگایا جاسکتا۔
آغا خان ڈولپمنٹ نیٹ ورک سے منسلک فوکس ہیومینیٹیرین اسسٹنس پاکستان نامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق گلگت بلتستان کے 300 کے لگ بھگ سروے شدہ دیہاتوں میں سے ںصف سے زائد مختلف قدرتی آفات کی زد میں آنے والے علاقوں پر واقع ہیں۔ موسمی تغیرات کی وجہ سے ان دیہات میں موجود افراد کا متاثر ہونا ناگزیر ہے۔ یہ یقیناً بہت تشویشناک بات ہے کیوں کہ زمینداروں کی کئی نسلوں نے اپنا خون پسینہ بہا کر ان زمینوں کو انسانی آبادی کے قابل بنایا ہے۔
وادئ نگر سے تعلق رکھنے والے حسین نگری صاحب سوشل میڈیا پر کہتے ہیں کہ اگر ان نمایاں تبدیلیوں کی محرکات کو سمجھنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں ہوئیں اور مستقبل کے لیے لوگوں کو تیار نہیں کیا گیا تو لاپرواہی اور غفلت کے ہولناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ اس اہم معاملے کو سمجھنے اور مستقبل کی تیاری کے لیے سب کی نگاہیں حکومت اور غیر حکومتی اداروں پر مرکوز ہیں۔
گلگت بلتستان کی حکومت نے گزشتہ دنوں گلیشرز کے نزدیک ندیوں، نالوں اور دریاؤں کے کنارے انسانی بستیاں تعمیر کرنے پر پابندی لگانے کی قرارداد منظور کی ہے۔ جبکہ جنگلات کے تحفظ کے لیے بھی سخت اقدامات اُٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان قراردادوں کو قوانین میں بدلنے اور ان پر عملدرآمد کروانے کی اشد ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ، حکومت کو چاہیے کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مزید وسائل تیار رکھیں اور زیادہ خطرات کی زد میں آنے والے علاقوں پر واقع دیہاتوں کے رہائیشوں کی دیگر مقامات میں آبادکاری اور ان کی بحالی کے لیے بھی پیشگی منصوبہ بندی کا سلسلہ شروع کردیں۔
مقامی آبادیوں کو ان حالات سے نمٹنے کے لیے سائنسی بنیادوں پر ہر طریقے سے تیار کرنا بھی ضروری ہے۔ اس سلسلے میں مقامی سطح پر سماجی تنظیمی ڈھانچے بنانے اور ان کو معلومات، صلاحیتوں اور سازوسامان سے لیس کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
سائینسدان گلوبل وارمنگ کے خطرات سے ہمیں آگاہ کرتے رہے ہیں۔ اس معاملے میں شدید احتیاط کے ساتھ ساتھ مقامی اور عالمی سطح پر اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ ہمارے ہمسائے میں چین واقع ہے، جو اس وقت دنیا کا صنعتی مرکز بن چکا ہے۔ صنعتی آلودگی چین میں ایک بہت بڑا مسئلہ پہلے سے بن چکا ہے۔ ان اثرات کا ہمسائے میں موجود علاقوں کی طرف منتقل ہونا حیران کن نہیں ہے۔
ابھی گلگت بلتستان سے پاک چین اقتصادی راہداری کی سرگرمیاں شروع ہونے جا رہی ہیں۔ اس تناظر میں بھی مستقبل قریب اور بعید کے چیلنجز کو سمجھنے اور مدنظر رکھنے اور ان کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت گزر جائے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔