Thursday, December 15, 2016

بڑائی اور عاجزی

گزشتہ ہفتے یورپین یونین کے پاکستان میں سفیر کے ساتھ شکارپور، لاڑکانہ اور سکھر میں تین دن گزارنے کا موقع ملا۔ وہ یورپی یونین کی مالی معاونت سے چلنے والے دیہی ترقی کے منصوبوں کا دورہ کر رہے تھے۔ 

اس دوران جو کچھ میں نے دیکھا وہ تحریر کر رہا ہوں، کیونکہ اس میں ہمارے لئے فکر کا سامان موجود ہے۔ 

پاکستان میں 28 یوربی ممالک کی نمائندگی کرنے والے سفیر نے اپنا بیگ خود اپنے کاندھے پر لٹکایا تھا۔ اُنہوں نے وی آئی پی لاونج کا رخ نہیں کیا۔ اسلام آباد ایرپورٹ پر ژاں فرانسوا کوتین، ان کی اہلیہ اور ان کا ایک باڈی گارڈ "عام مسافروں" کی طرح کاونٹر پر آئے، اور قطار میں کھڑے ہو کر بورڈنگ کارڈ حاصل کیا۔ یہاں سے ہم چھوٹے طیارے میں سکھر اور وہ کراچی چلے گئے۔ کراچی سے انہوں نے سکھر آنا تھا۔ 

سکھر میں ہم نے دیکھا کہ موصوف دیہاتی مردوں کے گلے مل رہے ہیں، ان کے ساتھ گھل مل گئے ہیں۔ فرمائشی تصویریں بنوا رہے ہیں۔ لوگوں کی فرمائش پر ایک گدھے کے ساتھ بھی تصویر بنوائی۔ سب کے ساتھ خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آرہے تھے۔ عزت کما رہے تھے۔ ہم جیسے "چھوٹوں" کے ساتھ بھی گپیں مار رہے ہیں، ہنس رہے ہیں، پوچھ رہے ہیں۔
کوئی سیکریٹری صاحب نہیں، جو بڑے صاحب کی زبان سے نکلے الفاظ کو ضبطِ تحریر میں لائے۔ میڈیا میں اچھالنے کے لئے نکتے ڈھونڈے۔ کوئی سیکریٹری صاحب نہیں جو بڑے صاحب کے آگے پیچھے کوٹ اُٹھائے، یا ڈائری اُٹھائے، چلتا پھرتا رہے۔ 

خواین تنظیموں کی میٹنگ کے دوران کوئی اہم نکتہ نوٹ کرنا ہوتو خود ہی جیب سے ایک چھوٹی سی نوٹ بک نکالی اور لکھنے لگے۔ کوئی منظر پسند آیا تو چھوٹا سا کیمرہ لے کر فوٹوگرافر بن گئے۔ 

ایک ایسی ہی تقریب میں ایک نامور سیاستدان، جو غریبوں کی پارٹی کے لمبے اور موٹے ستون ہیں، آئے تو ہٹو بچو بریگیڈ کے خدام کی معیت میں!! اور مجال ہے جو کسی سے سیدھی منہ بات کی ہو!! 

سفیر صاحب نے واپسی پر ہمارے ساتھ ہی اکانومی کلاس میں کراچی سے سفر کیا اور اپنا بیگ خود اُٹھائے ایر پورٹ سے باہر نکل کر چلے گئے۔ پروٹوکول سے عاری معمولات کی وجہ سے وہ ہم سب کی توجہ حاصل کر گئے۔ 


میں نے محسوس کیا کہ ہمارے ملک کے اسسٹنٹ کمشنرز اور تحصیلدار صاحب، اور این جی اوز کے افسران، بھی 28 ممالک پر مشتمل یورپی یونین کے اس سفیر سے زیادہ پروٹوکول اور شان و شوکت,، نخوت اور غرور، کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ 

فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے ملک کے وزرا انہی یورپی ممالک اور اسی یورپی یونین کے سفیر اور دیگر اہلکاروں سے ملکی غربت ختم کرنے کے نام پر اربوں روپے سالانہ مانگتے اور اڑاتے نظر آتے ہیں۔

میں نے یہ سیکھا کہ بڑائی کے بعد بھی عاجزی برقرار رکھنے، اور دکھانے، کے لئے مضبوط کردار کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی ہمارے ہاں شدید کمی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔