Tuesday, October 11, 2016

بیس سال بعد ہمارا معاشرہ کیسا ہوگا؟

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ (غالباً 1993 سے پہلے) ہمارے گاوں میں کوئی ڈش انٹینا نہیں تھا۔ ایک یا دو ٹیلی ویژن سیٹس تھے، جن کو وی سی آر کے ساتھ منسلک کر کے شادیوں کے دنوں میں تین چار فلمیں دیکھی جاتی تھیں۔ گاوں میں ایک ٹیلی فون ایکسچینج تھا، اور چند لوگوں کے گھروں میں ٹیلی فون کے ہینڈل سے گھمانے والے سیٹ تھے۔ ریڈیو سیٹس البتہ موجود تھے۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ کا نام کسی نے بھی نہیں سنا تھا۔ 


ان دنوں رات کے وقات، دن کو کھیتی باڑی اور دیگر کاموں سے فارغ ہوکر، ہمسائے ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے۔ مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی۔ قصے اور کہانیاں سنائے جاتے تھے۔ لوگ آپس میں گھل مل کر بیٹھتے تھے۔ سماجی روابط مضوط تھے۔ 



پھر دھیرے دھیرے ہمارا گاوں اور ارد گرد کے علاقے بھی جدیدیت میں مبتلا ہوگئے۔ سب سے پہلے ڈش انٹینا آگیا، اور اس کے آتے ہی شادیوں کے دنوں میں اکٹھے فلمیں دیکھنے کا رواج ختم ہوگیا۔ اب ہر شخص اپنے گھر میں بیٹھ کر دن میں متعدد فلمیں دیکھ سکتا تھا۔ پھر ڈیجیٹل ایکسچینج آگیا اور ٹیلی فون کی سہولت بہتر ہوگئی۔ اب لوگوں نے پیغامات دینے کے لئے ایک دوسرے کے گھروں تک جانا چھوڑ دیا۔ فون اُٹھا کر باتیں کرنے لگ گئے۔ پھر اچانک حالات نے پلٹا کھایا اور موبائل فونز آگئے۔ پھر انٹرنیٹ آگیا۔ ذرائع مواصلات کی زبردست ترقی ہوگئی۔ لیکن لوگوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا کم ہوگیا۔ انفرادی میل ملاپ محدود ہونے کا اثر سماجی یکجہتی پر بھی پڑا۔ شائد اسلئے کیونکہ اب لوگ ایک دوسرے پر بہت زیادہ انحصار نہیں کرتے ہیں۔ یا دوسرے الفاظ میں اب لوگوں کو ایک دوسرے کی ضرورت کم کم ہی محسوس ہوتی ہے۔ 



مستقبل میں انٹرنیٹ کی رفتار بڑھے گی۔ ہر گھر میں تین یا چار موبائل فونز تو پہلے سے ہی موجود ہیں، شائد اب ہر کمرے میں ایک الگ ٹیلی ویژن سیٹ ہوگا( چینی مصنوعات سستی جو ہیں)، اور ہر فرد کے پاس برق رفتار انٹرنیٹ ہوگا۔ 



مجھے فی الحال اچھی طرح سے نہیں معلوم کہ ان آنے والی تبدیلیوں کے اثرات کیسے ہونگے۔ لیکن اتنا انداز ضرور ہے کہ اس سے ہمارا سماجی نظام ترقی کرنے سے پہلے بڑے پیمانے پر درہم برہم ہوسکتا ہے۔ ان تبدیلیوں کے آگے بند باندھنے کی خواہش مضحکہ خیز ہوگی، لیکن بغیر سوچے سمجھے ان کے اثرات قبول کرنا اور اپنے سماجی نطام اور سماجی وثقافتی شناخت اور اقدار کو بچانے کی کوشش نہ کرنا بھی احمقانہ عمل ہوگا۔ 



علم اور معلومات کی بے تحاشا  بین الاقوامی بہاو کے اس دور میں ہمیں سوچنے، سمجھنے اور دانشمندانہ فیصلے کرنے والے افراد کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن ایسے افراد معاشرے میں فی الحال کمیاب ہیں اور ہمارے تعلیمی اداروں سے بھی زیادہ تر افراد ایسے نکلتے ہیں جن کو صرف روزگار کی فکر ہوتی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔