Saturday, October 08, 2016

غیرت کے نام پر قتل اور جنسی زیادتی کے خلاف قانون سازی

یوں تو ہر سال مملکتِ عزیز میں بھیانک طریقے سے قبائلی اور خاندانی غیرت کے نام پر کئی سو لڑکیوں اور خواتین کو قتل کیا جاتا ہے۔ لیکن گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں عزت اور غیرت کے نام پر قتل کے کئی ایسے واقعات رونما ہوے جن کی گونج پوری دنیا میں سنی گئی۔  اس مضمون میں ہم ان اہم سانحات کا مختصر حال بتانے کے بعد چند روز پہلے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور شدہ دو قوانین پر بھی نظر ڈالیں گے۔ 

1999 میں معروف قانون دان اسما جہانگیر اور حنا جیلانی کے لاہور میں واقع دفتر میں سمعیہ سلیم نامی خاتون کو اس کے گھر والوں نے گولی مار کر قتل دیا، کیونکہ وہ اپنیکزن سے طلاق لینا چاہتی تھی۔ 2002 میں مظفرگڑھ کی مختاراں مائی کو کچھ بھیڑیوں نے ہوس کی بھینٹ چڑھایا۔ مختاراں مائی کا مقدمہ پوری دنیا میں سنا گیا کیونکہ اس نے اپنے حقوق کے لئے فقید المثال کوششیں کیں۔

2007 میں تسلیم سولنگی نامی لڑکی کو بدچلنی کا الزام لگا کر قبائلی جرگے کے فیصلے کے مطابق وحشیانہ طریقے سے قتل کردیا گیا۔ تسلیم سولنگی کے والد نے الزام لگایا کہ اس کی حاملہ بیٹی کو قبائلی جرگے کے فیصلے کے مطابق بھوکے کتوں کے آگے پھینکا گیا اور پھر گولیاں ما رکر قتل کردیا گیا۔ اسی سال کائنات سومرو نامی لڑکی کو چار افراد نے بے ہوش کرنے کے بعد اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور اسے کئی دنوں تک حبس بے جا میں رکھا۔ مجرموں کے قید سے فرار ہونے کے بعد کائنات سومرو نے انصاف کے حصول کے لئے عدالتوں اور قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ لیکن ثبوت کی عدم موجودگی کی بنیاد پر عدالت نے کیس خارج کردیا اور کائنات سومرو انصاف کی تلاش میں دردر ٹھوکرے کھانے پر مجبور ہوگئی۔ ایک مہینے کے بعد کائنات سومرو کے بھائی کو، جس نے اپنی بہن کو انصاف دلانے کے لئے کوششیں کی تھیں، قتل کردیا گیا۔ خود کائنات سومرو کو سریوں سے پیٹا گیا، اور اس کے والد اور دیگر رشتہ داروں کو بھی قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ کائنات سومرو کی مدد کرنے کے لئے بہت سارے بین الاقوامی ادارے میدان میں کود پڑے، اور کائنات کی تکالیف اخباری کہانیوں اور الیکٹرانک میڈیا رپورٹس کی شکل پوری دنیا تک پہنچ گئیں۔ انصاف لیکن اُسے آج تک نہیں ملا ہے۔ 

جولائی 2008 میں تین لڑکیوں اور دو خواتین کو پسند کی شادی کرنے کے جرم میں غیرت بچانے کے لئے بلوچستان کے ضلع جعفر آباد میں زندہ دفن کردیاگیا۔ اس وقت سینیٹر سردار اسرار اللہ زہری نے ڈھٹائی سینٹ میں بیان دیا کہ ان کی قبائلی روایات کے مطابق اپنی پسند کی شادیاں کرنے والی لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا درست فیصلہ ہے۔ انہوں نے اس گھناونی جرم کا دفاع کر کے پارلیمان اور ملکی قانون کو مذاق بنادیا۔ ایک ذمہ دار شخص کے اس بیان سے پاکستان کی دنیا بھر میں شدید جگ ہنسائی ہوئی۔
2014 میں لاہور ہائی کورٹ کے سامنے فرزانہ نامی حاملہ خاتون کو اس کے بیس کے لگ بھگ خاندان والوں نے دن دیہاڑے اس وقت قتل کردیا،جب وہ اپنے خاوند کے خلاف قائم کردہ اغوا کے کیس کی پیروی کرنے عدالت آرہی تھی۔ خاندان والے ناراض تھے کہ آخر فرزانہ بی بی نے اپنی مرضی سے شادی کیوں کی۔والدین ہی نے فرزانہ کے خاوند کے خلاف اغوا کا جھوٹا مقدمہ قائم کیا تھا۔ اس ناراضگی کی سزا اُنہوں نے یوں دی کہ ڈنڈوں اور پتھروں سے مار مار کر اپنی حاملہ بیٹی کو سرِ عام قتل کردیا، وہ بھی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی سب سے بڑی عدالت کے سامنے۔ 

2016 میں مری کی رہائشی ماریہ صداقت کو شادی سے انکار پر آگ لگا کر قتل کردیا گیا۔کیونکہ ماریہ نے شادی سے انکار کر کے مجرم کی نام نہاد مردانہ غیرت کو للکارا تھا۔ اسی سال ایک جرگے کے فیصلے کے مطابق ایبٹ آباد میں عنبرین نامی لڑکی کو غیرت کے نام پر گاڑی سمیت جلا کر راکھ کردیا گیا۔ یہ بھی غیرت کے نام پر قتل کا معاملہ تھا۔جلائے جانی والی لڑکی پر الزام تھا کہ اس نے اپنی ایک سہیلی کو گھر سے بھاگ کر شادی کرنے میں مدد دی تھی۔ جون کے مہینے میں قصور کی رہائشی نازیہ حمید نامی لڑکی کو اس کی والدہ نے غیر ت کے نام پر جلا کر قتل کردیا۔اسی سال کراچی میں ایک نوعمر لڑکے نے اپنی بہن کو انتہائی بے رحمی سے چھریوں کے پے درپے وار کر کے قتل دیا۔ غیرت کے نام پر۔ لڑکی اپنے گھر کی دہلیز میں ایک غلیظ لحاف کے نیچے خون میں لت پت تڑپتی رہی۔ارد گرد کھڑے بے حس لوگ موبائل فون پر ویڈیو بناتے رہے۔ اور شقی القلب کمسن قاتل اپنے موبائل فون سے کھیلتا رہا۔ اس قتل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر ایک دفعہ غلطی سے میں نے دیکھ لی۔ اب بھی جھرجھری آتی ہے، کہ انسان اس قدر بھی بے حس اور درندہ صفت ہوسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر مقبول اور اپنے بے باک سرگرمیوں کی وجہ سے متنازعہ ماڈل قندیل بلوچ کو بھی اسی سال جولائی کے مہینے میں اس کے بھائی نے گلا گھونٹ کر غیرت کے نام پر قتل کردیا

یہ تو ذکر تھا چند ایسے نمایاں سانحات کا جو میڈیا کی وجہ سے پورے ملک اور عالمی سطح پر منفی نقوش چھوڑ گئے۔ برطانوی ابلاغی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق سال دو ہزار پندرہ میں پاکستان بھر میں غیرت کے نام پر ۱۱۰۰ خواتین کو قتل کیا گیا۔ اوسطاً ہر سال پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کے کم از کم پانچ سو واقعات رونما ہوتے ہیں۔ 

جن واقعات کا ہم نے ذکر کیا، یہ پاکستان کے دیگر علاقوں میں رونما ہوے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے گلگت بلتستان میں بھی بچوں اور بچیوں کو بڑی تعداد میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ آج بھی ہم لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرنے اور اس کا حل تلاش کرنے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کے بھی بہت سارے واقعات گلگت بلتستان میں ہوتے ہیں۔ ان میں سے قتل کے بہت سارے واقعات کو خودکشی یا حادثے کا رنگ دے کر عموماً حقیقت چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور اگرکسی طرح خبر سامنے آبھی جائے تو قتل ہونے والی لڑکی کے گھر والے اپنے غیرت مند سپوت کو معاف کردیتے ہیں۔ یعنی قتل اور اقدام قتل میں براہ راست ملوث ہونے کے باوجود بھی قانونی سقم کا فائدہ اُٹھاتے ہوے خاندان کے افراد اپنے آپ کو معاف کردیتے ہیں۔ 

تاہم، اب امید پیدا ہوئی ہے کہ انصاف کے ساتھ زیادہ دیر تک اس طرح کا مذاق نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ قومی شوری (پارلیمنٹ) نے اپنے مشترکہ اجلاس میں دو تاریخی نوعیت کے قوانین منظور کیے ہیں۔ ان میں سے ایک قانون غیرت اور عزت کے نام پر قتل کے خلاف ہے، اور دوسر اجنسی زیادتی (ریپ) کے خلاف۔

عزت اور غیرت کے نام پرقتل کے خلاف قانون کے مطابق اب مقتولہ کے گھریا خاندان والوں کو قاتل کو معاف کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔ اگر خاندان والے قاتل کو معاف کر بھی دیں تو غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کوعمر قید کی سزا ہوگی۔ 

دوسرے منظور شدہ قانون کے مطابق اب جنسی زیادتی کے کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ لازماً کروانا ہوگا۔ ڈی این اے ٹیسٹ کی رپورٹ کیس کی شہادتوں کا اہم حصہ ہوگا، اور اس کے مطابق فیصلے ہوں گے۔ یاد رہے کہ ماضی میں بہت سارے مقدمات میں جنسی زیادتی کے مرتکب مجرم محض اسلئے بچ جاتے تھے کہ عدالت میں شہادتیں فراہم کرنا عملاً ناممکن ہوتا تھا۔ اب ڈی این اے ٹیسٹ کرنے سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگا ۔ قانون میں ترمیم کے بعد اب یہ بھی شامل کرلیا گیا ہے کہ اگر کسی تفتیشی افسر نے جنسی زیادتی کے کیس میں ہیر پھیر کرنے ، شہادتیں ضائع کرنے یا تحقیقات میں گڑ بڑ کی کوشش کی تو اس کے خلاف کاروائی ہوگی۔ اور اسے تین ماہ سے ایک سال تک قید کی سزا اور پانچسو سے پچاس ہزارروپے تک جرمانہ کی سزا ہوگی۔ 

نئے قانون میں ایک اور اہم شق یہ ہے کہ کسی بچے یا بچی کو یا ذہنی یا جسمانی طور پر معذور فرد کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے یا والی کو موت کی سزا ملے گی۔ اس جرم میں بھی کم از کم سزا عمر قید ہوگی۔ اس قانون کے ایک اور شق کے مطابق اگر کوئی سرکاری افسر، مثلاً ڈاکٹر، پولیس افسر، یا محکمہ جیل کا کوئی افسر یا کارندہ اپنے عہدے کا غلط استعمال کرتے ہوے جنسی زیادتی کا مرتکب ہوا تو اس کو پھانسی کی سزا دی جائے گی۔ ترمیم شدہ قانون کے مطابق جنسی زیادتی کے کیس کا فیصلہ تین مہینے میں سنانا ہوگا۔ اور اس فیصلے کے خلاف اپیل چھ ماہ کے اندر کرنے کی گنجائش ہوگی۔ 

نئے قانون میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں پر جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی/والے کی شناخت ظاہر نہ کرنے کی پابندی لگائی گئی ہے۔ اخبار اور دیگر ذرائع ابلاغ ریپ کا نشانہ بننے والی لڑکی یا لڑکے کا نام یا کوئی ایسی علامت نہیں لکھ/چھاپ سکیں گے جس سے متاثرہ فرد کی شناخت ممکن ہو سکے۔ اس پابندی کا اطلاق تعزیرات پاکستان کے دفعات 354 الف، 376، 376 ب ، 377 اور 377 ب کے تحت قائم کردہ مقدمات پر ہوگا۔ قانون شکنی کی صورت میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو تین سال تک قید کی سزا ہوگی۔ اگر عدالت اپنے فیصلے میں متاثرہ فرد کی شناخت ظاہر کرے تو پھر ذرائع ابلاغ اسے قانوناً چھاپ سکیں گے۔ 

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں زیادتی کا نشانہ بننے والے افراد کی کوئی داد رسی نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ الٹا ان کو لعن طعن کا نشانہ بنا کر ان کا جینا دوبھر کیا جاتا ہے۔ زیادتی کرنے والے کو ثبوتوں کی عدم فراہمی یا قانونی اداروں کی کمزوری کی وجہ، سے سزا نہیں ہوتی ہے۔ اگر سزا ہو بھی تو خاندان والے معافی دے دیتے ہیں۔ ایسے جنسی بھیڑیوں کے خلاف سماجی سطح پر بھی کوئی مزاحمت نہیں ہوتی ہے۔ متاثرہ شخص کی زندگی البتہ اجیرن ہوجاتی ہے۔ 

حکومت گلگت بلتستان کو چاہیے کہ قومی پارلیمان میں منظور شدہ ان قوانین کو گلگت بلتستان میں بھی لاگو کرے اور ان عمل درآمد یقینی بنائے تاکہ انصاف کا بول بالا ہو سکے۔ ہمارے خوبصورت خطے میں جنسی زیادتی کے متعدد واقعات ہوتے ہیں، لیکن ان کو شرمندگی کے خوف اور غیرت کے نام پر دبایا جاتا ہے۔ یہ روش ہمارے معاشرے کے لئے نقصان دہ ہے۔ ہمیں ایسے واقعات کو بے خوف و خطر سامنے لانا چاہیے اور حکومتی اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان واقعات اور معاملات میں انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے۔ 

نئے قوانین کا بننا خوش آئند ہے، لیکن اصل بات ان پر عمل درآمد کی ہے۔ دیر آ ید، درست آ ید کے مصداق پارلیمان نے اپنا کام کر دیا ہے۔ اب ان قوانین پر بلا خوف و خطر موثر انداز میں عمل در آمد کروانا حکومتوں،انتظامیہ، اور عوام الناس کی ذمہ داری ہے۔ 


0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔