ثقافتی اور روایتی ٹوپی یا کپڑوں کا دن ضرور منائیں۔ میں بھی منا رہا ہوں۔ بلکہ میں تو یکم ستمبر کو بھی منا چکا تھا۔ آج دوسری دفعہ منارہا ہوں۔
لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ ٹوپی بنیادی طور پر انسانی ضرورت کے تحت بنائی گئی ہے۔ اور ہمارے علاقے کی بنیادی ضرورت سردی سے بچاو ہے۔ اونی کپڑے سے ہمارے علاقے میں ٹوپی اسی لئے بنائی گئی ہے۔
ہمارے بھیڑ بکریوں کے رنگ بھورے، سفید اور کالے ہیں، اسی لئے ہماری ٹوپیوں کے رنگ بھی بھورے، سفید اور کالے ہیں۔ اگر گلابی رنگ کے بھیڑ ہمارے علاقے میں موجود ہوتے تو شائد ہماری ٹوپیوں میں سے بعض کا رنگ گلابی ہوتا۔
اون سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں بھی موجود ہے، لیکن وہاں کے لوگ اونی کپڑے اور اونی ٹوپیاں نہیں پہنتے، کیونکہ ان کا علاقہ گرم ہے۔ ہلکے کپڑوں سے کام چل جاتا ہے۔
اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں ثقافت کی علامت بن جانے والی اشیائے ضرورت پر اس علاقے میں دستیاب وسائل کے ساتھ ساتھ جغرافیہ اور موسم کا بھی گہرا اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح ٹوپی کی ساخت ، سلائی کے طریقے اور کپڑے کی کوالٹی کا دارومدار بھی رائج الوقت ٹیکنالوجی اور بنانے والے کی تخلیقی صلاحیت پر ہوتا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ثقافتی علامات کو تقدیس کا درجہ دینے کی بجائے ہمیں اس کی ابتدا، افادیت، اہمیت اور مستقبل کے بارے میمں غور وفکر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی معلومات اور علم میں اضافے پر بھی توجہ دینی ہوگی۔
بدلتی ٹیکنالوجی کے ساتھ ثقافت کےمظاہر، یعنی کپڑے، ٹوپیاں، ظروف اور دیگر اشیائے ضروری و غیر ضروری میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ تبدیلی کا یہ عمل ازمنہ قدیم سے جاری وساری ہے، اورمستقبل بعید تک جاری رہے گا۔
اس لئے اگر ہماری ٹوپی مستقبل میں یکسر بدل جاتی ہے، اور ہم کوئی دوسری ٹوپی اپناتے ہیں، تو اس میں اچھنبے کی کوئی بات کم از کم میرے لئے نہیں ہوگی۔ آج ہم جو ٹوپی پہن رہے ہیں، یہ بھی ٹیکنالوجی کی تبدیلی اور مختلف وقتوں میں دستیاب وسائل کی وجہ سے مختلف مراحل سے گزرتے ہوے ہم تک پہنچی ہے۔
ان تبدیلیوں کی ایک زندہ زندہ مثال یہ ہے کہ آج ہم میں سے بہت سارے لوگ سفید لمبے اونی چوغے کی بجائے نارتھ فیس کے کوٹ، اور سندل/تاوچنگ (چھیتڑوں سے بنے روایتی پا پوش) کی بجائے سروس، باٹا اور کیٹرپلر کے جوتے پہنتے ہیں۔ یہ تبدیلی منطقی ہے۔ کیونکہ نارتھ فیس کے کوٹ اور کیٹر پلر کے جوتے ہمارے روایتی ملبوسات کی نسبت پائیدار اور گرم ہیں، اور اس لئے بھی کہ اب منڈی تک ہماری رسائی بڑھ چکی ہے اور ہماری آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اس لئے، ثقافت کی ترویج اور تشہیر کی بات کرتے ہوے ہمیں مظاہر سے زیادہ ثقافت کے جوہر، یعنی اقدار، کی بات کرنی چاہیے۔ کیونکہ اقدار، یعنی فیاضی، مہمان نوازی، خوش اخلاقی، راست گوئی، ایمانداری، بھائی چارگی، غمگساری، اخلاص اور ہمدردی وغیرہ، زمان اور مکان، یعنی وقت ، جغرافیہ اور ٹیکنالوجی کےتابع نہیں ہوتے۔
ہمارے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ہم روایتی لباس اور دیگر مظاہر کی حد تک ہی ثقافت کو زندہ رکھنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اقدار کی ترویج اور تشہیر پر بات کرتے ہوے ہماری حالت غیر ہوجاتی ہے، کیونکہ ہم خود گفتار کے غازی ہیں، کردار کے نہیں۔
لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ ٹوپی بنیادی طور پر انسانی ضرورت کے تحت بنائی گئی ہے۔ اور ہمارے علاقے کی بنیادی ضرورت سردی سے بچاو ہے۔ اونی کپڑے سے ہمارے علاقے میں ٹوپی اسی لئے بنائی گئی ہے۔
ہمارے بھیڑ بکریوں کے رنگ بھورے، سفید اور کالے ہیں، اسی لئے ہماری ٹوپیوں کے رنگ بھی بھورے، سفید اور کالے ہیں۔ اگر گلابی رنگ کے بھیڑ ہمارے علاقے میں موجود ہوتے تو شائد ہماری ٹوپیوں میں سے بعض کا رنگ گلابی ہوتا۔
اون سندھ اور پنجاب کے میدانی علاقوں میں بھی موجود ہے، لیکن وہاں کے لوگ اونی کپڑے اور اونی ٹوپیاں نہیں پہنتے، کیونکہ ان کا علاقہ گرم ہے۔ ہلکے کپڑوں سے کام چل جاتا ہے۔
اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں ثقافت کی علامت بن جانے والی اشیائے ضرورت پر اس علاقے میں دستیاب وسائل کے ساتھ ساتھ جغرافیہ اور موسم کا بھی گہرا اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح ٹوپی کی ساخت ، سلائی کے طریقے اور کپڑے کی کوالٹی کا دارومدار بھی رائج الوقت ٹیکنالوجی اور بنانے والے کی تخلیقی صلاحیت پر ہوتا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ثقافتی علامات کو تقدیس کا درجہ دینے کی بجائے ہمیں اس کی ابتدا، افادیت، اہمیت اور مستقبل کے بارے میمں غور وفکر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی معلومات اور علم میں اضافے پر بھی توجہ دینی ہوگی۔
بدلتی ٹیکنالوجی کے ساتھ ثقافت کےمظاہر، یعنی کپڑے، ٹوپیاں، ظروف اور دیگر اشیائے ضروری و غیر ضروری میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ تبدیلی کا یہ عمل ازمنہ قدیم سے جاری وساری ہے، اورمستقبل بعید تک جاری رہے گا۔
اس لئے اگر ہماری ٹوپی مستقبل میں یکسر بدل جاتی ہے، اور ہم کوئی دوسری ٹوپی اپناتے ہیں، تو اس میں اچھنبے کی کوئی بات کم از کم میرے لئے نہیں ہوگی۔ آج ہم جو ٹوپی پہن رہے ہیں، یہ بھی ٹیکنالوجی کی تبدیلی اور مختلف وقتوں میں دستیاب وسائل کی وجہ سے مختلف مراحل سے گزرتے ہوے ہم تک پہنچی ہے۔
ان تبدیلیوں کی ایک زندہ زندہ مثال یہ ہے کہ آج ہم میں سے بہت سارے لوگ سفید لمبے اونی چوغے کی بجائے نارتھ فیس کے کوٹ، اور سندل/تاوچنگ (چھیتڑوں سے بنے روایتی پا پوش) کی بجائے سروس، باٹا اور کیٹرپلر کے جوتے پہنتے ہیں۔ یہ تبدیلی منطقی ہے۔ کیونکہ نارتھ فیس کے کوٹ اور کیٹر پلر کے جوتے ہمارے روایتی ملبوسات کی نسبت پائیدار اور گرم ہیں، اور اس لئے بھی کہ اب منڈی تک ہماری رسائی بڑھ چکی ہے اور ہماری آمدنی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اس لئے، ثقافت کی ترویج اور تشہیر کی بات کرتے ہوے ہمیں مظاہر سے زیادہ ثقافت کے جوہر، یعنی اقدار، کی بات کرنی چاہیے۔ کیونکہ اقدار، یعنی فیاضی، مہمان نوازی، خوش اخلاقی، راست گوئی، ایمانداری، بھائی چارگی، غمگساری، اخلاص اور ہمدردی وغیرہ، زمان اور مکان، یعنی وقت ، جغرافیہ اور ٹیکنالوجی کےتابع نہیں ہوتے۔
ہمارے ساتھ المیہ یہ ہے کہ ہم روایتی لباس اور دیگر مظاہر کی حد تک ہی ثقافت کو زندہ رکھنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ اقدار کی ترویج اور تشہیر پر بات کرتے ہوے ہماری حالت غیر ہوجاتی ہے، کیونکہ ہم خود گفتار کے غازی ہیں، کردار کے نہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔