گلگت بلتستان میں یکم اکتوبر کو ثقافتی ٹوپی اور شانٹی کا دن سرکاری سطح پر منایا جارہا ہے۔ گزشتہ سال حکومت کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ ثقافتی ٹوپی کا تہوار یکم ستمبر کو منایا جائے گا ، لیکن سی پیک کانفرنس کی وجہ سے اعلان کردہ وقت پر اس کا اہتمام نہ ہوسکا۔ اس دن کو سرکاری سطح پر منانے کا فیصلہ بہت اچھا ہے۔ یہ ایک بہت ہی اچھا آغاز ہے۔ مجھے ڈر صرف اس بات کا ہے کہ شانٹی کا دن منانے کی وجہ سے بطخوں کی شامت نہ آجائے۔ سرکاری سطح پر اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ عوام کو یہ دن منانے کے لئے بطخوں کا شکار کرنے کی بجائے بازاروں میں دستیاب مصنوعی شانٹی استعمال کرنے کی ترغیب دی جائے۔
ثقافتی ٹوپی دن کے منتظمین یقیناً اس حقیقت سے واقف ہیں کہ گلگت بلتستان بہت ساری ٹوپیو ں کا دیس ہے۔ یہاں ہر ثقافت کی اپنی الگ ٹوپی ہے۔ مرد اور خواتین کی ٹوپیاں بھی الگ ہیں۔ بعض علاقوں میں بچوں کی ٹوپیاں بھی الگ ہوتی ہیں۔ ہمارے علاقے کی خوبصورتی اسی ثقافتی تنوع میں ہے، کیونکہ اس تنوع میں یک رنگی نہ ہونے کے باوجود بھی ایک منفرد یکسانیت ہے۔ یہ یکسانیت ہمیں میراث میں ملی ہے۔ ہمیں بھول کر بھی اس متنوع گلدستے کو یک رنگ بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ ہمیں اس ثقافتی متنوع گلدستے کے ہر رنگ کی حفاظت کرنی ہے اور اسے تازہ اور خوش رنگ رکھنا ہے۔
ثقافت کی ترویج کے لئے اُٹھائے گئے ہر قدم کی دل و جان سے تائید کرنا ہر ذی شعور شہری کی ذمہ داری ہے ۔کیو نکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹریڈ کے زیر اثر متعدد ثقافتوں کی ہمارے علاقے پر مسلسل یلغار مختلف ذرائع سے جاری ہے۔ اور ہم ، جو دنیا کے منفرد ترین ثقافتوں اور روایتوں کے گلدستے میں ایک خوبصورت پھول کی مانند ہیں، اپنی حیثیت اور اہمیت سے بے خبر بنیادی ضروریات کی جنگ میں اُلجھے ہوے ہیں۔ اور کیوں نہ ہوں؟
روٹی ، کپڑا اور مکان کے مسلے حل ہی نہیں ہو پارہے ہیں۔صحت کے بنیادی مسلے حل طلب ہیں۔ ہماری سڑکیں کھنڈرات کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ ورثے کی نشانیاں تباہ ہوتے ہوتے نیست و نابود ہوچکے ہیں یا پھر آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ نوشتہ دیوار ہے کہ اگر غیر سرکاری اداروں کی کوششیں نہیں ہوتیں تو یہ جو چند آثار جا بجا نظر آتے ہیں ان کی تباہی بھی یقینی تھی۔ ایک طرف خوشحالی کے نعروں سے درودیوار اور کاغذاتِ اخبار بھرے جارہے ہیں، اور دوسری طرف عام لوگ خوشحالی کی جھلک صرف اربابِ اختیار اور صاحبانِ اقتدار کی شکلوں، ان کی بیش بہا گاڑیوں، برانڈڈ کپڑوں ، مہنگی گھڑیوں ، پھیلتے بنگلوں اورپھولتی تجوریوں میں ہی دیکھ سکتے ہیں، یا محسوس کرسکتے ہیں۔ عام آدمی اپنے حالات سے آج بھی اتنا ہی بیزار ہے جتنا پہلے تھا۔ یقین نہیں آتا تو ذرا سڑکوں پر نکل کر لوگوں سے پوچھ لیجئے۔ پوچھ لیجئے کہ صحت کے مسائل حل ہوتے نظر آرہے ہیں؟ توانائی کا بحران ختم ہورہا ہے؟ معیارِ زندگی بڑھ رہی ہے یا گھٹ رہی ہے؟ خیر چھوڑیے ان باتوں کو۔
ہم سب کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ثقافت کے مظاہر اور باطنی معنویت کو سمجھے بغیر اس کی حفاظت نہیں کی جاسکتی ہے۔ ثقافت کے ظاہری پہلووں میں ملبوسات، رسومات، آثارِ قدیمہ وغیرہ ضرور شامل ہیں۔ لیکن ثقافت کا جوہر ان ظاہری پہلووں میں نہیں مل سکتا۔ ثقافت دراصل اقدار کا نام ہے۔ اور کسی بھی معاشرے کے اقدار کی ترویج اور پہچان زبان کے زریعے ہوتی ہے ۔ تو اگر یہ کہا جائے کہ زبان کو ثقافت سے ہٹا دیا جائے تو استخوان باقی رہ جاتا ہے، لیکن روح نکل جاتی ہے۔
ہماری حالت یہ ہے کہ اس انفارمیشن ایج، یعنی دورِ معلومات، میں کئی سال آگے بڑھنے کے باوجود ہم اپنی زبانوں کو ابھی تک تحریر میں نہیں لا پائے ہیں۔ ہم اردو اور انگریزی میں لکھنے کے قابل ہو گئے ہیں، یا ہونے کی کوششوں میں لگے ہوے ہیں، اور ابھی اقتصادی داہداری سے مستفید ہونے کی خاطر پورے زور و شور سے چینی زبان سیکھنے کی تگ ودو میں لگے ہوے ہیں۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا کہ ان معاشی اور سماجی دباو کے زیرِ اثر ہم اپنی زبانوں کو بھولتے جارہے ہیں۔
یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ گلگت بلتستان میں سرکاری سطح پر ریڈیو پاکستان کے ذریعے مقامی زبانوں میں چلنے والے پروگرامز کے علاوہ علاقائی، مقامی، زبانوں کی ترویج کے لئے کوئی اقدامات نہیں اُٹھائے گئے ہیں۔ زبانی جمع خرچ سے کام لیا جارہا ہے۔ گزشتہ دو یا تین سالوں سے پاکستان ٹیلی ویژن دو علاقائی زبانوں میں مختصر پروگرامز نشر کرہی ہے، لیکن یہ ناکافی ہے۔
گزشتہ دنوں ایک رکنِ اسمبلی نے قرارداد پیش کردی کہ مقامی زبانوں کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ ان کی نیت اچھی ہے ، لیکن میرے خیال میں ان کی تجویز پر فوری عملد رآمد ممکن نہیں ہے۔ اس وقت حکمت عملی یہ ہونی چاہیے کہ حکومت پر زور دیا جائے کہ مقامی زبانوں کو تحریر میں لانے کے لئے سول سوسائٹی کے اداروں اور ماہرین کی معاونت کرے، ان کی سرپرستی کرے، اور علاقائی زبانوں کا ایک مقتدرہ قائم کر کے اسے وسائل فراہم کئے جائیں۔ کیونکہ نصاب میں شامل کرنے سے پہلے زبانوں کا تحریر میں آنا، متفقہ رسم الخط کا وجود میں آناناگزیرہے۔ زبانوں کو تحریر میں لائے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ نصاب میں شامل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ بعد میں ہوگا۔ بہر حال رکن اسمبلی کی طرف سے اس تجویز کا سامنے آنا اور زیادہ تر اراکین اسمبلی کا اس قرارداد کی تائید کرنا یقیناً خوش آئند ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ بعض افراد، بشمول اراکین اسمبلی، مادری زبان کی اہمیت سے انکار کرتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً بعض افراد کو یہ بھی کہتے ہوے سنا جاسکتا ہے کہ مادری زبان کی بھلا کیا اہمیت ہے۔ کونسی ہم نے اور ہمارے بچوں نے اپنی مادری زبان سیکھ کر اس کے بل بوتے پر نوکری کرنی ہے ۔ مطلب یہ کہ ہماری زندگی اور اس کی تمام تر سرگرمیوں کا مقصد خود کو نوکر بننے کے قابل بنانا ہے، اور نوکری کرتے ہوے مر جانا ہے۔ منطقیت کوئی ان دانش جویانِ عجیب سے سیکھے۔ یعنی بندہ وہ علم سیکھے ہی کیوں جس کو پیسے میں نہ بدلا جاسکے؟
وزیر اعلی گلگت بلتستان ایک فعال سیاستدان ہے۔ جو افراد ان سے وقتاً فوقتاًملتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ وزیر اعلی صاحب نہ صرف رائے اور تجاویز سنتے ہیں بلکہ اچھی رائے پر عملی اقدامات بھی اُٹھاتے ہیں۔اس تحریر کے ذریعے ان سے گزارش ہوگی کہ ثقافتی ٹوپی ڈے منانے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ زبان اور اقدار کی ترویج اور حفاظت کے لئے بھی کوشش کی جائے۔ زبانوں کی ترقی اور ترویج کےء لئے بہت سارے ادارے اپنی مدد آپ کے تحت کوششیں کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان اداروں کی سرپرستی کرے اور ان کو وسائل فراہم کرے تاکہ ان کی کوششیں بارآور ہو سکیں۔
یہ حقیقت ہے کہ زبان اور اقدار کھونے کے بعد اگر ہم اپنی ٹوپیوں اور کلغیوں (شانٹی) کو سینے سے لگا کر، عقیدت اور احترام کے ساتھ، رکھ بھی لیں تو اپنی ثقافت کو نہیں بچا پائیں گے۔ کیونکہ ٹوپی محض ایک علامت ہی ہے، جبکہ ثقافت ایک وسیع اور گہری سماجی اور سیاسی حقیقت کا نام ہے۔
یہ مضمون گلگت بلتستان کے موقر روزنامہ کے ٹو، سلام اور بادِ شمال میں بھی شائع ہوا ۔
یہ مضمون گلگت بلتستان کے موقر روزنامہ کے ٹو، سلام اور بادِ شمال میں بھی شائع ہوا ۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔