اُس نے اپنی پرانی شناخت، اپنے "آبائی مذہب" اور اپنے بزرگوں کے رکھے ہوے نام کو "غلامی کے دور کی نشانی" کہہ کر رد کر دیا تھا۔ محمد علی کہتا تھا کہ میرا نیا نام بہت خوبصورت ہے اور میں عظیم ترین ہوں۔ وہ کہتا تھا کہ اگر کوئی میری طرح عظیم ہو تو اس کے لئے عاجز رہنا اور عاجزی دکھانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ لوگ اس کی باتوں کو سنتے تھے، سراہتے تھے، اس سے محبت کرتے تھے، کھیل اور فنِ بلاغت میں اس کی مہارت کے گرویدہ تھے۔ وہ ہمہ وقت اپنے مذہب کے بارے میں بات کرتا تھا، اپنے عقائد کُھلے عام بیان کرتا تھا۔ بلاخوف وخطر اپنے جذبات کا اظہار کرتا تھا۔
عیسائیت چھوڑ کر مسلمان بننے والے محمد علی کو زندگی میں بہت محبت ملی۔ ان کے تلخ ترین بیانات اور خیالات کو نہ صرف سنا گیا، بلکہ عوامی سطح پر ان کے جذبات کو ان کے ملک میں اور پوری دنیا میں ہمیشہ سراہا گیا۔ امریکی سپریم کورٹ نے نہ صرف یہ کہ ویتنام جنگ کی کھلے عام مخالفت کرنے اور اس میں حصہ نہ لینے کی پاداش میں حکومت کی طرف سے عائد کردہ سزاؤں کو ختم کیا اور انہیں باکسنگ کھیلنے اور گھومنے پھرنے کی اجازت دی، بلکہ ان کے تمام اعزازات بھی لوٹا دئیے۔
آج موت کے بعد محمد علی کی میت ایک بڑی کالی گاڑی میں رکھ کر اس کے آبائی علاقے سے گزارتے ہوے قبرستان لے جائی جارہی ہے۔ سی این این پر وقفے وقفے سے براہ راست نشریات جاری ہیں۔ بہت ساری بڑی بڑی کالی گاڑیاں اس کے آگے پیچھے آہستہ آہستہ چل رہی ہیں۔ سڑک کے دونوں اطراف لوگ کھڑے ہیں، ہر رنگ و نسل کے، اور میت پر گُل پاشی ہورہی ہے۔
کوئی اس کے مذہب کی وجہ سے اس کی مخالفت نہیں کر رہا۔ کوئی عیسائی اسے مرتد کہہ کر لتاڑ نہیں رہا۔ کوئی اسے مسلمان کہہ کراس کی میت سے دور نہیں بھاگ رہا۔
شائد یہی فرق ہے ہم میں اور ان میں۔ وہ فن کی قدر کرتے ہیں۔ ہم فن کی قدر صرف تعصبات کی تیرگی میں کرتے ہیں۔ جو ہمارے مذہب یا فرقے کا نہیں اس کی بڑی کامیابیاں ہمیں چھوٹی لگتی ہیں، اور اپنے فرقے اور مذہب کے بونے ہمیں "عظیم الشان" نظر آتے ہیں۔
عیسائیت چھوڑ کر مسلمان بننے والے محمد علی کو زندگی میں بہت محبت ملی۔ ان کے تلخ ترین بیانات اور خیالات کو نہ صرف سنا گیا، بلکہ عوامی سطح پر ان کے جذبات کو ان کے ملک میں اور پوری دنیا میں ہمیشہ سراہا گیا۔ امریکی سپریم کورٹ نے نہ صرف یہ کہ ویتنام جنگ کی کھلے عام مخالفت کرنے اور اس میں حصہ نہ لینے کی پاداش میں حکومت کی طرف سے عائد کردہ سزاؤں کو ختم کیا اور انہیں باکسنگ کھیلنے اور گھومنے پھرنے کی اجازت دی، بلکہ ان کے تمام اعزازات بھی لوٹا دئیے۔
آج موت کے بعد محمد علی کی میت ایک بڑی کالی گاڑی میں رکھ کر اس کے آبائی علاقے سے گزارتے ہوے قبرستان لے جائی جارہی ہے۔ سی این این پر وقفے وقفے سے براہ راست نشریات جاری ہیں۔ بہت ساری بڑی بڑی کالی گاڑیاں اس کے آگے پیچھے آہستہ آہستہ چل رہی ہیں۔ سڑک کے دونوں اطراف لوگ کھڑے ہیں، ہر رنگ و نسل کے، اور میت پر گُل پاشی ہورہی ہے۔
کوئی اس کے مذہب کی وجہ سے اس کی مخالفت نہیں کر رہا۔ کوئی عیسائی اسے مرتد کہہ کر لتاڑ نہیں رہا۔ کوئی اسے مسلمان کہہ کراس کی میت سے دور نہیں بھاگ رہا۔
شائد یہی فرق ہے ہم میں اور ان میں۔ وہ فن کی قدر کرتے ہیں۔ ہم فن کی قدر صرف تعصبات کی تیرگی میں کرتے ہیں۔ جو ہمارے مذہب یا فرقے کا نہیں اس کی بڑی کامیابیاں ہمیں چھوٹی لگتی ہیں، اور اپنے فرقے اور مذہب کے بونے ہمیں "عظیم الشان" نظر آتے ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔