وادی شمشال گلگت بلتستان میں واقع ضلع ہنزہ کا ایک وسیع و عریض اور قدرتی حسن سے مالامال سرحدی علاقہ ہے۔ شمشال کی سرحدیں براہِ راست عوامی جمہوریہ چین اور بلتستان ڈویژن کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔
ماؤنٹ ایوریسٹ سمیت سات براعظموں میں واقع سات بلند ترین چوٹیاں سر کرنے والی کوہ پیما ثمینہ بیگ کا تعلق شمشال سے ہے، جبکہ کوہ پیمائی کے میدان میں ان کے پیشرو رجب شاہ، مہربان شاہ، رحمت اللہ بیگ اور پاکستان کی بلند ترین چوٹیاں سر کرنے والے دیگر متعدد نامور کوہ پیماؤں نے بھی شمشال میں جنم لیا اور اپنی محنت، لگن اور کوششوں سے پاکستان کے لیے نیک نامی کمانے کا ذریعہ بن گئے۔
زمانہء قدیم سے شمشال تک رسائی حاصل کرنا جان جوکھوں کا کام رہا ہے۔ دشوار گزار راستوں پر پیدل اور گھوڑوں پر شمشال کے باسی درجنوں بار دریاؤں اور گلیشیائی نالوں کے خون جما دینے والی پانیوں کے آر پار چلتے چلتے وادی سے باہر نکل کر ہنزہ کے دیگرعلاقوں تک پہنچ پاتے تھے۔ گزشتہ دو دہائیوں سے البتہ کسی حد تک شمشال کے باسیوں کو سفری سہولیات میسر آئی ہیں۔ اب ایک جیپ روڈ کے ذریعے شمشال کے باسی تین سے چار گھنٹوں میں شمشال آ جاسکتے ہیں۔
سفری سہولیات میں آسانی آنے کے باوجود بھی بہت ساری ضروریاتِ زندگی شمشال میں ناپید ہیں، لیکن آفرین شمشال کے جفاکش باسیوں پر کہ صدیوں سے قدرتی آفات، سخت ترین جغرافیے، مرکز سے دوری اور دیگر مشکلات کے باوجود اپنا معیارِ زندگی بہتر بنانے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں۔
اپنے علاقے کو جدید دور کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی تڑپ رکھنے والے شمشال کے باسیوں نے بجلی پیدا کرنے کے لیے جدید ترین اور ماحول دوست ایجاد یعنی شمسی توانائی کو مکمل طور پر اپنا لیا ہے۔ شمشال غالباً پاکستان کا واحد گاؤں ہے جہاں ہر گھر کی چھت پر سولر پینل نصب ہیں، اور گھروں کے اندر روشنی پیدا کرنے کےعلاوہ علاقے کے مکین شمسی توانائی کو سیٹیلائٹ ڈش سے منسلک ٹیلیویژن دیکھنے اور کیمرے چارج کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔
مقامی لوگوں نے مجھے بتایا کہ انہوں نے شمشال گاؤں سے تین دن کی مسافت پر واقع پامیر کی چراگاہ تک بھی سولر پینل پہنچا دیے ہیں، اور وہاں رہنے والے گلہ بان شمسی توانائی سے مستفید ہو رہے ہیں۔
گوجال کے گاؤں پسو سے شمشال کی جانب جاتے ہوئے سڑک کے اطراف پتھروں سے تعمیر شدہ چھوٹے مکانوں کی چھتوں پر بھی جا بجا سولر پینل لگے نظر آتے ہیں۔
شمشال کے سماجی اور سیاسی رہنما شمبی خان نے بتایا کہ شمشال میں تقریباً دو سو گھرانے ہیں، اور ہر گھر کی چھت پر آپ کو سولر پینل نظر آئیں گے۔ لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت شمسی توانائی کو استعمال میں لاتے ہوئے بجلی کا بحران کافی حد تک کم کر لیا ہے۔
سولر پینل کی قیمتیں سائز کے اعتبار سے مختلف ہیں۔ شمشال کے باسی اوسطاً 15 سے 18 ہزار روپے میں سولر پینل خرید کر اپنے گھروں میں نصب کر دیتے ہیں۔ زیادہ پیسے خرچ کر کے بڑے سولر پینل نصب کروائے جا سکتے ہیں۔
سولر پینل کی دکانیں گلگت، علی آباد (ہنزہ) اور شمشال میں واقع ہیں جبکہ انہیں ہمسایہ ملک چین سے براستہ خنجراب درآمد کیا جاتا ہے۔ شمشال کے متعدد لوگ اس کاروبار سے منسلک ہیں۔
کچھ سال پہلے اے کے آر ایس پی نامی غیر سرکاری تنظیم کی مدد سے شمشال میں ایک چھوٹا ہائیڈرو پاور منصوبہ تعمیر کیا گیا تھا، لیکن اس پاور ہاؤس سے شمشال کے باسی موسم گرما کے دوران صرف تین یا چار ماہ مستفید ہو سکتے ہیں، جبکہ آٹھ سے نو ماہ تک وہ شمسی توانائی پر انحصار کرتے ہیں۔
شمشال کے ایک اور سماجی رہنما غلام شاہ نے ایک مشکل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ شمسی توانائی سے اندھیرے مٹانے میں تو آسانی ہوتی ہے لیکن فی الوقت بھاری برقی آلات کا استعمال ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ حکومت نے شمشال کے لیے اعشاریہ دو میگاواٹ (دوسو کلو واٹ) تک بجلی پیدا کرنے والے منصوبے پر کام شروع کر رکھا ہے، اور ایک یا دو سالوں میں اس منصوبے کی متوقع تکمیل کے بعد شمشال کے باسیوں کو وافر مقدار میں بجلی میسر آئے گی۔
مگر چند مزید مقامی لوگوں سے بات چیت پر معلوم ہوا کہ محکمہ برقیات کے حکام گزشتہ بارہ سالوں سے مسگر (گوجال میں واقع ایک اور سرحدی گاؤں) میں جاری بجلی کا منصوبہ مکمل نہیں کر پائے ہیں"۔
بجلی فراہمی کا حکومتی منصوبہ بروقت مکمل ہوگیا تو بہت اچھی بات ہے لیکن اگر بوجوہ ایسا نہ بھی ہوا تو شمشال کے باسی شمسی توانائی کے ذریعے فی الحال اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔
اگر حکومتِ گلگت بلتستان شمسی توانائی کی ٹیکنالوجی متعارف کروائے اور اس سلسلے میں تاجروں اور خریداروں کے لیے آسانیاں پیدا کرے تو اندھیروں کو مٹانے کا کام بہت حد تک آسان ہو سکتا ہے۔
ایک ایسے وقت میں کہ جب دنیا بھر میں موسمی تبدیلی کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تشویش پھیلی ہوئی ہے اور متبادل ماحول دوست توانائی اپنانے کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے، شمشال کے لوگوں نے شمسی توانائی کو استعمال میں لا کر پاکستان کے دیگر دور افتادہ علاقوں کے لیے ایک مثال قائم کردی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومتیں اور ادارے اس اچھی روایت کو دوسرے علاقوں تک پھیلانے میں کتنی سنجیدگی دکھاتے ہیں۔
یہ کہانی تین دن پہلے ڈان اردو کی ویب سائٹ پر شائع ہوئی تھی۔
http://www.dawnnews.tv/news/1031556/05jan2016-bijli-mein-khud-kafeel-hunzah-ka-gaun-noor-pamiri-bm
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔