طبیبانِ بے سرحد، یا ڈاکٹرز ودآوٹ بارڈرز، ایک عالمی طبی ادارہ ہے جس کے ساتھ مجھے ایک سال تک کام کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان میں یہ ادارہ ہنگو، کوئٹہ، ڈیرہ مراد جمالی، باجوڑ ایجنسی، کُرم ایجنسی، چمن اور اس طرح کے دوسرے دور دراز علاقوں میں سرکاری محکمہ صحت کے ہسپتالوں میں علاج معالجے کی خدمات فراہم کرتا ہے۔ پشاور میں البتہ ان کا اپنا ہسپتال ہے، جہاں خواتین اور بچوں کے امراض کے ڈاکٹرز ہمہ وقت موجود ہوتے ہیں۔ ایسے ہسپتال اور دیگر طبی مراکزطبیبانِ بے سرحد دنیا بھر کے درجنوں جنگ زدہ اور غربت کی وجہ سے پیچھے رہ جانے والے ممالک، یا علاقوں، میں چلاتی ہے۔
ایک ایسا ہی بدقسمت ہسپتال افغانستان کے شہر قندوز میں بھی تھا۔ اس ہسپتال میں سوکے لگ بھگ سٹاف ممبرز اور بڑی تعداد میں مریض اور ان کے ہمراہ آنے والے افراد موجود تھے، جب طالبان کے ساتھ برسرپیکار افغانی اور امریکی حکام نے اس ہسپتال پر آگ اور لوہے کی بارش کر دی۔
تیس منٹ تک جاری رہنے والے ہولناک حملے نے ہسپتال کے ایک حصے کو مکمل طور پر منہدم کر دیا، جبکہ اس تباہ کن حملے کی زد میں آکر کم از کم بائیس افراد جان بحق اور درجنوں زخمی بھی ہوے۔ ان بائیس افراد میں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق 12 ڈاکٹرز اور 10 مریض شامل ہیں۔ اس خوفناک اور بے رحم حملے کے بعد ایم ایس ایف قندوز میں اپنا کام بند کر کے نکل چکا ہے۔
ادارے کے عالمی سربراہ کے مطابق افغان اور امریکی (نیٹو) افواج کو اس ہسپتال کے واضح کوآرڈینیٹس، محل وقوع، پہلے سے بتا دئے گئے تھے، کیونکہ عالمی سطح پر مروج جنگی اصولوں کے مطابق ہسپتال اورسکولوں پر حملہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
ان احتیاطی تدابیر کے باوجود ایک ہسپتال پر مسلسل دیر تک حملے کرنا اور مخصوص مقامات کو نشانہ بناناکر اس میں موجود مریضوں اور ڈاکٹروں کو قتل کرنا یا زخمی کرنا ایک ناقابلِِ فہم عمل ہے اور اس سے حملہ کرنے والوں کی صلاحیتوں، نیتوں اور ان کے اصل اہداف پر سوال اٹھتا ہے۔
اس حملے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ حملے کے بعد جب ہسپتال کی عمارت کا ایک بڑا حصہ تباہ کر دیا گیا تھا، اور متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے تھے، ایم ایس ایف کے لئے کام کرنے والے افراد جانفشانی کا مظاہرہ کرتے ہوے بچے ہوے کمرے میں مریضوں اور زخمیوں کی جان بچانے کی تگ ودو کر رہے تھے۔ یقینایہی اس ادارے کا طرہ امتیاز ہے، کہ اس کے لئے کام کرنے والے افراد اپنی جانوں کو جوکھم میں ڈال کر دوسروں کی خدمت کرتے ہیں اور ان کی جانیں بچاتے ہیں۔
واقعے کے بعد طبیبانِ بے سرحد کے بینر تلے چلنے والے تمام اداروں ، اس کے ہمدردوں اور انسانی حقوق کےعالمی اداروں نے مطالبہ کیا ہے کہ اس حملے کی غیر جانبدارانہ اور آزاد ذرائع سے عالمی سطح پرتحقیق کی جائے، اور اس میں ملوث افراد، اداروں، کا تعین کیا جائے اور اس کے محرکات معلوم کئے جائیں۔
اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر ایک مہم کا آغاز بھی کیا گیا ہے، جس میں دنیا بھر کے لوگ شریک ہوسکتے ہیں ۔ آزاد تحقیقات کے مطالبے میں شامل ہونے کے لئے #Kunduz اور #independentinvestigation ٹائپ کر کے آپ بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
شرمناک بات یہ بھی ہے کہ حملے کے بعد افغانستان کی حکومت نے یہ کہہ کر کہ ہسپتال میں طالبان جنگجو موجود تھے اس خونریزی کو جائز قرار دینے کی کوشش کی۔ اگر باالفرض یہ تسلیم کیا جائے کہ ہسپتال میں جنگجو موجود تھے تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری عمارت کو متعدد مریضوں سمیت نیست ونابود کیاجائے؟ اگر جنگجو زخمی ہو جائے اور ہسپتال چلا جائے تو کیا ڈاکٹرز اور نرسز اس کا علاج کرنے سے انکار کردیں؟
بعض افراد اور اداروں، بشمول ایم ایس ایف نے اس حملے کو عالمی قوانین کے تحت ممکنہ طور پر قابلِ تعزیر جنگی جرم قراردیا ہے، اور حملے میں ملوث امریکی اور افغانی افواج کے خلاف تادیبی کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی حکومت نے اس حوالے سے تحقیقات کرنے کاعندیہ دیا ہے۔ جبکہ امریکی ڈیفنس سیکریٹری نے کہا ہے کہ اس حملے میں ملوث افراد کے خلاف کاروائی کی جائیگی۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ حقائق سامنے لانے میں وقت لگ سکتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا عالمی ادارے ، بالخصوص اقوام متحدہ اور سیکیورٹی کونسل، اس سلسلے میں اپنا کردار ادا سکتے ہیں یا پھر طاقتور ممالک کے دباو تلے تحقیقات کا گلا گھونٹ کر انصاف کو قتل کرنے کے جرم میں ایک بار پھر شریک ہوتے ہیں۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔