دو ہفتوں کے بعد گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کی آئینی مدتِ حکومت ختم ہوجائیگی۔ وزیر اعلی سید مہدی شاہ اور انکی کابینہ کے ارکان اور دیگرممبران اسمبلی دوبارہ سے ووٹوں کے حصول کے لئے سرگرداں ہو جائیں گے۔ نئے اونچے دعوے کیے جائیں گے ۔ پرانے جھوٹے وعدے دہرائے جائیں گے ۔ نسل، فرقہ، زبان، مذہب، علاقہ کے نعرے بلند جائیں گے۔ جواب میں ہم لوگ ان کے نعرے سنیں گے۔ انکی تقریروں کی داد دیں گے۔ ان کے حق میں نعرے لگائیں گے۔ فرقہ وارانہ خوف اور دشمنی کی فضا پیدا کرنے والوں کے نعرے ہم میں سے بہت ساروں کے سینے میں اتر جائیں گے۔ ہم ان کی باتوں پر سر دھنیں گے، انکے نظریات سے اتفاق کریں گے۔
اگر نظریات اور پیغامات یا پھر صیح یا غلط خطرات اور خدشات کی ہمارے نظر میں اہمیت نہیں ہوگی ، تو چائے، بریانی، گوشت، وغیرہ کھا کر بھی ہم میں سے بہت سارے اگلے پانچ سال کے لئے اپنے حکمران چنیں گے۔ اور اگر ہم اتنے کم قیمت پر نہیں بکنے والے ہیں ، تو شائد ہم نقدروپے بھی لیں گے۔ بالواسط نہیں تو بلاواسطہ۔ بینظیر انکم سپورٹ فنڈ کے پیسے کام آسکتے ہیں، اور کچھ مقامات پر وزیر اعظم لون سکیم کے فورم بھی دستیاب ہونگے، تاکہ ہمارے ضمیر کو خریدنے کی بھر پور کوشش کی جائے، اور ہم میں سے بہت سارے بک بھی جائیں گے۔ دیگر شخصیات اور سیاسی تنظیمات دوسرے طریقہ واردات بھی استعمال کریں گے۔ کچھ ممنون و مشکور قسم کے افراد وہ ہونگے جنہوں نے پچھلی حکومت کے دوران ٹھیکیداری کے ذریعے پیسے بنائے ہیں، یا پھر کسی قسم کی نوکری غیر قانونی طریقے سے حاصل کی ہوگی۔ یا پھر اپنے کسی عزیز کو نوکری دلوائی ہوگی۔ بعض دور اندیش جمہوری سرمایہ کار مستقبل میں پیسے بنانے کی امید پر بھی امیدواروں کو ووٹ دیں گے یا پھر ان کے کمپین میں دامے، درمے، سخنے بقدرِ جثہ حصہ لیں گے ۔ غرض، ہم میں سے بہت سارے افراد غیر قانونی کام کے عوض بطور شکریہ ووٹ دیں گے۔ ایک اور حقیقت یہ بھی ہے کہ ہزاروں لوگ توسرے سے ووٹ دینگے ہی نہیں۔ ان کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے، انتخابات کیا ہوتے ہیں، بہتر حکومتی نظام کے لئے اسکی اہمیت کیا ہے اور ووٹ دینا کیوں ضروری ہے۔
ان سارے اعمال اور افعال کا منطقی نتیجہ یہی نکلے گا کہ فرقہ پرست، زر پرست اور موقع پرست افراد ہم پر دوبارہ سے مسلط ہو جائیں گے۔ ان میں سے کوئی مذہب کی ٹھیکیداری کیے فرائض سرانجام دیگا۔ کوئی کلوٹ ، کوئی سڑک، کوئی سکولوں کی تعمیر، کوئی پلوں کی تعمیر اور کوئی اپنے گھروں کی تعمیر کی خود ٹھیکیداری کرے گا اور بریانی، چائے، گوشت اور نقد رقم (جو انتخابات کے دوران ہمیں اور آپ کو بطور نذرانہ دیا گیا تھا) معہ منافع وصول کرے گا۔ کمیشن اس کے علاوہ ہوگا۔ پھر پانچ سال گزر جائیں گے۔ ہمارے ہسپتال اسی طرح ڈاکٹروں کے بغیر ہونگے۔ ہمارے سکولوں میں غیر قانونی طور پر ملازمت حاصل کرنے والے اساتذہ ہونگے۔ ہمارے دفاتر میں اسی طرح رشوت خوری کا دور دورہ ہوگا۔ پانی میسر نہیں ہوگا۔ہمارے بچے غیر محفوظ ہونگے۔ ہماری بہنیں غیر محفوظ ہونگی۔ ہمارے بزرگ توجہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ ہمارے شہروں میں کچرا چننے والے بچوں کی تعداد بڑھتی جائیگی۔ ہماری سڑکیں کھنڈرات ہی بنی رہیں گے۔ ناقص میٹریل اور غلط منصوبہ بندی سے تعمیر شدہ سکولوں، ہسپتالوں اور کی عمارتیں ، پل، سڑکیں وغیرہ وغیرہ ہمیشہ خطرے کی زد پر ہی رہیں گی۔ غرض کچھ نہیں بدلے گا۔ ہاں اتنا ضرور ہوگا کہ علاقے میں غریبوں کی تعداد بڑھتی جائیگی، وہ بھی اسی تناسب سے جس سے غیر قانونی طور پر مالدار افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائیگا۔
امن و سکون غارت ہوگا۔ فرقہ پرست اپنے فرقے کے لوگوں کو ادارے میں گھسانے کی کوشش کرے گا۔ زرپرست ہر موقعے پر اپنے کمیشن کے حصول کے لئے سرگرداں ہوگا۔ موقع پرست کبھی کبھار کرپشن کا شور مچا کر یا حقوق کی باتیں کرکے عوام کو بہلانے کی کوشش کرے گا لیکن عملی طور پر سسٹم کا غلام بن کر اپنی مدتِ ملازمت پوری کرنے کی سعی میں لگا رہے گا۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں سسٹم کی غلامی ناگزیر ہیں، کیونکہ نظام کی بنیادیں گہری ہیں اور کماندانِ سول و غیر سول سخت ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ سخت ہیں۔ انکی مرضی اور انکی رضا کے بغیر کوئی پرندہ پر نہیں مارسکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسی باتیں کرنے والے نظام کے مراعات یافتہ افراد پرندے نہیں ہیں۔ یہ تو چوپائے ہیں۔ جو اپنے مفادات کے حصول کے لئے ظلم و جبر دیکھنے سننے اور سہنے کے باوجود حقوق کے حوالے سے مہر بلب اور ارباب اختیار کی تعریف میں رطب السان رہنے کے علاوہ بوقت ضرورت رینگنے کا کام بھی کر سکتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ اگر ان موقع شناس اور خدمات گزار قسم کے مرعات یافتہ سیاستدانوں کے ذاتی یا خاندانی یر پھر ذاتی سیاسی مفاد کے کسی عمل میں خلل آئے تو پھر زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں۔ وہ شور مچاتے ہیں کہ الحفیظ ، الامان۔
تو ایسے میں کیا کیا جائے؟ خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے؟ اپنے ہی معاشی، فکری اور عقلی استحصال کے عمل میں حصہ دار بنے ؟ یا پھر اپنی جمہوری قوت کو دانشمندی کے ساتھ اجتماعی مفاد میں استعمال کرکے ایسے نظام کی تشکیل میں ہاتھ بٹائے جس میں ظلم اور جبر کم سے کم ہوتا ہوا ختم ہو جائے مواقع سب کے لئے یکساں ہو، لوگوں کوسہولیات میسر ہو اور کچھ خاندانوں اور کچھ شخصیات کی ہر چیز پر اجارہ داری کا خاتمہ ہو سکے؟ یہاں پر سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ ایسا کتابی، یوٹوپیائی، نظام کیسے تشکیل دیا جاسکتاہے؟
میرے خیال میں اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنے مطالعے کو وسعت دینی ہوگی۔ مشاہدے میں اضافہ کرنا ہو گا اور اپنے ماضی پر غور و فکر کرنے کے علاہ دوسرے معاشروں سے بھی سیکھنے کی ضرورت ہوگی ۔ دنیا بھر میں ایسے دسویں معاشرے ہیں جنہوں نے یہ سب کامیابیاں حاصل کر لی ہیں ۔ کامل معاشرہ کوئی بھی نہیں ہے۔ شائد کوئی معاشرہ کاملیت کا دعوی کر بھی نہیں سکتا۔ لیکن ایسے معاشروں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے جو صدیوں تک جاری رہنے والی جنگ و جدل، غربت اور افلاس کو پیچھے چھوڑ کر وہ اس وقت اتنے آسودہ اور پر امن ہوچکے ہیں کہ انکی مثالیں دی جاتی ہیں ۔ ایسے معاشرے مشرق میں بھی ہیں اور مغرب میں بھی۔ ایسے معاشرے دنیا کو علمی ، سماجی، معاشی اور ثقافتی لحاظ سے رہنمائی فراہم کر رہے ہیں۔ ہزاروں خامیوں کے باوجود ان ممالک میں قانون کی حکمرانی ہے۔ کرپشن کرنے والوں کو سزائیں ملتی ہیں۔ غیر قانونی کام کرنے والے جلد یا بدیر سلاخوں کے پیچھے ہوتے ہیں۔ ایسی مثالیں ہمارے ارد گر موجود ہیں۔ ابلاغ کے اس تیز رفتار دور میں ایسے معاشروں کے بارے میں جاننا مشکل نہیں ہے۔ ان معاشروں کی خصوصیت کیا ہے؟ انہوں نے ایسے کمالات کس طرح حاصل کئے ہیں؟ ان کے بارے میں ہمیں پڑھنے اور معلومات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
چند خاصیتیں جو ان معاشروں میں مشترک ہیں، وہ یہ ہیں کہ یہ لوگ قابلیت کی بنیاد پر لوگوں کو رہنما بناتے ہیں۔ نفرتیں پھیلانے والوں کو رد کرتے ہیں۔ علم، ہنر، دانش اور کردار کے دلدادہ ہیں۔ خاندانی ، فرقہ وارانہ، علاقائی اور لسانی تعصبات کو بہت حد تک بالا طاق رکھ کر معاشرتی ترقی کے لئے مل جل کر کام کرتے ہیں۔ اور ان نسبتا کامیاب معاشروں کے باشندے نہ تو خود قانون شکنی کا مرتکب ہوتے ہیں، اور نہ ہی قانون شکن افراد کو رہنمائی اور رہبری کا حق دیتے ہیں۔
ہم میں بھی یہ ساری خصوصیتیں کم و بیش موجود ہیں۔ اور اب ہمیں تہیہ کرنا چاہیے کہ ہم ان خاصیتوں کو نہ صرف خود بروئے کار لائینگے بلکہ اپنے معاشرے کے دوسرے افراد کو بھی ان اوصاف اور اقدار کی افادیت سے آگاہ کریں گے ، اور ان کو اپنانے کی تلقین کریں گے۔ جمہوری عمل کے ذریعے ہمیں اپنے رہنما چننے کا اختیار ہے۔ اس اختیار کو دیانتداری سے استعمال کرتے ہوے ہم نہ صرف استحصالی قوتوں کی طاقت کو کم کرسکتے ہیں بلکہ اہل اور قابل افراد کو سامنے لا کر اپنے معاشرے کی ترقی میں اہم کردار بھی ادا کرسکتے ہیں۔ اور اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو یہی ٹھیکیدار پھر اقتدار میں ہونگے اور استحصال کا برترین سلسلہ اسی طرح جاری و ساری رہے گا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔