بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ سال کے ہر مہیںے میں کوئی نہ کوئی سانحہ رونما ہوتاہے. کسی سانحے میں زیادہ لوگ مارے جاتے ہیں اور کسی میں کم. کسی کو دنیا بڑا سانحہ سمجھتی ہے اور کسی کو چھوٹا سانحہ.
تو خیال یہ آیا تھا کہ شاید مستقبل میں کوئی سال ایسا بھی آئیگا، اللہ کرے ہمارے جانے کے بعد، جب سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے ہر ایک دن کے ساتھ کوئی نہ کوئی چھوٹا، بڑا سانحہ منسلک ہوگا.
جب سال کے سارے دن کسی نہ کسی سانحے کو یاد کرنے کے لیے وقف ہوںگے، تو کیا اس کے بعد سانحات بند ہوںگے؟
بظاہر تو ایسا نہیں لگتا. اگر سانحات کی رفتار اسی طرح جاری رہی توشائد ایسا بھی ہوگا کہ ایک ایک دن دو دو سانحات کے ساتھ جڑ جائیگا. اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر ایک دن تین، چار یا پھر پانچ سانحات کی یاد دلائیگا.
ویسے یوں بھی تو ہے کہ اگر دیکھا جائے تو شاید ہمارا موجودہ دن، یعنی آج کا دن، بھی کسی نہ کسی سانحے کی یاد گار یا پھر سانحات کی یادگار ہوسکتا ہے!!
مطلب کہنے کا یہ ہے کہ تاریخ انسانی سانحات سے بھری پڑی ہے. ایک سے بڑھ کر ایک سانحہ. ایک سے بڑھ کر ایک واقعہ. ایک سے بڑھ کر ایک روح کو فنا کردینے والی حقیقت.
تو پھر ایسا کیوں ہے کہ یہ سانحات ہمیں ایک طرح سے متاثر نہیں کرتے؟
زمان اور مکان کا عنصر عمل پیرا ہے یا پھر کوئی اور ہی حقیقت ہے؟
پھر خیال آیا کہ شاید سانحے کا ہونا بڑا سانحہ نہیں ہے. سانحے سے متاثر ہو کر زندگی کی حقیقتوں کو بھولنا، معمول کو تیاگ دینا، امید چھوڑ دینا، مایوس ہوجانا اور مایوس کرنا اصل سانحہ ہے.
میں مایوسی کو اصل سانحہ اس لیے بتا رہا ہوں کیوںکہ میرے خیال میں مایوسی بد اعتمادی کی طرف لیجاتی ہے، بد اعتماری نفرت کی طرف اور نفرت آخر کار تصادم پر منتج ہو جاتاہے.
مایوس نہ ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ سانحات ہوتے رہے اور لوگ لاتعلق بنے پھرتے رہے. بلکہ میرا خیال یہ ہے کہ سانحات کے باوجود بھی لوگ مایوس نہ ہوں بلکہ بہتر مستقبل کی امید برقرار رکھتے ہوے سدھار کے لیے اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتے رہے.
بہتری کی امید ہی نہیں ہوگی تو بہتری کیسے لائی جا سکے گی؟
تو خیال یہ آیا تھا کہ شاید مستقبل میں کوئی سال ایسا بھی آئیگا، اللہ کرے ہمارے جانے کے بعد، جب سال کے تین سو پینسٹھ دنوں میں سے ہر ایک دن کے ساتھ کوئی نہ کوئی چھوٹا، بڑا سانحہ منسلک ہوگا.
جب سال کے سارے دن کسی نہ کسی سانحے کو یاد کرنے کے لیے وقف ہوںگے، تو کیا اس کے بعد سانحات بند ہوںگے؟
بظاہر تو ایسا نہیں لگتا. اگر سانحات کی رفتار اسی طرح جاری رہی توشائد ایسا بھی ہوگا کہ ایک ایک دن دو دو سانحات کے ساتھ جڑ جائیگا. اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر ایک دن تین، چار یا پھر پانچ سانحات کی یاد دلائیگا.
ویسے یوں بھی تو ہے کہ اگر دیکھا جائے تو شاید ہمارا موجودہ دن، یعنی آج کا دن، بھی کسی نہ کسی سانحے کی یاد گار یا پھر سانحات کی یادگار ہوسکتا ہے!!
مطلب کہنے کا یہ ہے کہ تاریخ انسانی سانحات سے بھری پڑی ہے. ایک سے بڑھ کر ایک سانحہ. ایک سے بڑھ کر ایک واقعہ. ایک سے بڑھ کر ایک روح کو فنا کردینے والی حقیقت.
تو پھر ایسا کیوں ہے کہ یہ سانحات ہمیں ایک طرح سے متاثر نہیں کرتے؟
زمان اور مکان کا عنصر عمل پیرا ہے یا پھر کوئی اور ہی حقیقت ہے؟
پھر خیال آیا کہ شاید سانحے کا ہونا بڑا سانحہ نہیں ہے. سانحے سے متاثر ہو کر زندگی کی حقیقتوں کو بھولنا، معمول کو تیاگ دینا، امید چھوڑ دینا، مایوس ہوجانا اور مایوس کرنا اصل سانحہ ہے.
میں مایوسی کو اصل سانحہ اس لیے بتا رہا ہوں کیوںکہ میرے خیال میں مایوسی بد اعتمادی کی طرف لیجاتی ہے، بد اعتماری نفرت کی طرف اور نفرت آخر کار تصادم پر منتج ہو جاتاہے.
مایوس نہ ہونے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ سانحات ہوتے رہے اور لوگ لاتعلق بنے پھرتے رہے. بلکہ میرا خیال یہ ہے کہ سانحات کے باوجود بھی لوگ مایوس نہ ہوں بلکہ بہتر مستقبل کی امید برقرار رکھتے ہوے سدھار کے لیے اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتے رہے.
بہتری کی امید ہی نہیں ہوگی تو بہتری کیسے لائی جا سکے گی؟
1 comments:
بہترین بلاگ نور۔ مزا آیا
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔