Thursday, March 06, 2014

ماما قدیر بلوچ کے ساتھ چند قدموں کا سفر


پچهلے دنوں موقعہ ملا کہ بلوچ سماجی کارکن ماما قدیر کے ساتھ چند قدموں کا سفر طے کر سکوں. مجھے معلوم ہے کہ  چند قدموں کا یہ سفر کوئی خاص کارنامہ نہیں ہے. اتنی خوشی البتہ ضرور ہوئی ہے کہ ایک غیر متشدد تحریک کے روح رواں کو قریب سے دیکھنا اور سننانصیب ہوا.

عمر رسیدہ ماما قدیر بلوچ کچھ خواتین اور چند بچوں کے ساتھ کوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل سفر کرکے آیا تھا. دوہزار میل سے زیادہ طویل مسافت طے کر کے، گردو غبار میں اٹے، ایک ٹھیلہ، جس پر کچھ تصویریں سلیقے سے رکھی ہوئی ہیں، کو دکھیلتے ہوے اپنے ملک کے دارالخلافہ تک پہنچنے والا ماما قدیر، اور ان کے ساتھی، اپنے تلخ اور ترش تجربات کی بنیاد پر بہت سخت باتیں کر رہے تھے. انکی آواز کرخت تھی. وہ بہت ناراض تھے. ان کا مطالبہ یہ تھا کہ جو "لاپتہ" افراد ہیں ان کو عدالتوں میں پیش کیا جائے یا پھر ان کے خاندانوں کو بتایا جائے کہ وہ زندہ بھی ہیں یا پھر ان کی موت واقع ہو چکی ہے. وہ یہ مطالبہ بھی کر رہے تھے کہ بلوچستان میں آپریشن بند کردیا جائے اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ رکوا دیاجائے. "مارو، پھینکو" پالیسی کے خلاف مارچ میں شامل افراد نعرے لگا رہے تھے.  


یہ مطالبہ بظاہر اتنا غلط بھی نہیں ہے. عدالتیں چل رہی ہیں  اور ملک میں متحرک عدالتی نظام موجود ہے. اس نظام سے فائدہ اٹھانا شہریوں کا حق بنتا ہے. مجرموں کو عدالتوں میں پیش کیا جائے، انکاجرم ثابت کیا جائے اور انکو سزادی جائے۔ ورنہ تو انہیں چھوڑ دیا جائے، یا پھر ان کے محرومیوں کا ازالہ کیا جائے تاکہ احتجاج اور ناراضگی کی نوبت ہی نہ آ سکے!

ہمارے پالیسی ساز اداروں اور مقتدر حلقوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ لوگوں کی سماجی، سیاسی، ثقافتی اور معاشی ترقی یقینی بنائے بغیر بدامنی نہیں روکی جاسکتی اور نہ ہی انہیں بزور بازو خاموش یا پھر ختم کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جن معاشروں کو دبانے کی کوششیں کی گئی ہیں وہ زیادہ اُبھرکر سامنے آئے ہیں۔ 

بلوچستان کی مخدوش صورتحال کے پس منظر میں محرومیوں اور نظرانداز کرنے کی ایک طویل داستان ہے جس کا اعتراف سیاسی و سماجی رہنماؤں ںے متعدد موقعوں پر کیا ہے. ان حالات میں لوگوں کا مایوس ہو جانا منطقی اور فطری امر ہے. انکی ناراضگی غلط نہیں. انکی شکایت غیر مستند نہیں ہے. اور ان کی بات میں وزن ہے. وہ غصے میں ضرور ہیں لیکن یہ غصہ بلاوجہ نہیں ہے.

خیر، ماماقدیر اور بلوچستان کی کہانی پر بہت کچھ لکھا اور پڑھا جا چکا ہے. میں اس لانگ مارچ کے ایک پہلو پر روشنی ڈالنا چاہتا ہوں، جسے "حب الوطنی" سے مغلوب چند نادان دوست سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں. 

ماما قدیر بلوچ کی جو بات مجھے سب سے اچھی لگی وہ انکے احتجاج کا طریقہ ہے. وہ تشدد پر یقین نہیں رکھتا ہے. بلکہ اسے اس بات کا یقین ہے کہ وہ پر امن اور سیاسی انداز میں، ملکی قوانین کو توڑے بغیر، اپنا احتجاج ریکارڈ کر رہاہے. ان کے برعکس ایسے بھی محروم طبقے ہیں جو اسلحہ بردار اور پرتشدد مزاحمتی سیاست کررہے ہیں اور ملک کے معصوم شہریوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں. ملک کے فوجیوں اور پولیس والوں کا قتل عام اس کے علاوہ ہے. 

ناانصافی ملک کے کسی بھی حصے میں ہو، مزاحمتی آواز ملک کے ہر حصے سے اٹھنی چاہیے. میرا خیال ہے کہ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار زخموں پر مرہم بن سکتا ہے. 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔