اسلام آباد میں آج کافی دنوں کے بعد زوروں کی بارش ہوئی. عام طور پر بارش خوشی اور شادمانی کا پیامبر ہوتا ہے لیکن آج بارش بھی دل کی اداسی کو دور نہیں کر سکا. کل رات کچھ "نامعلوم" ظالموں نے گلگت بلتستان کی زمین پر پھر سے خون کی ہولی کھیلی. ایک کرنل، ایک ایس ایس پی اور پاک فوج کے ایک کپتان شہید ہو گئے اور کم از کم تین افراد زخمی ہوگئے. ایسا نہیں ہے کہ ہمارے علاقے میں بربریت کا یہ پہلا واقعہ ہے،بلکہ اس سے پہلے بھی مظلوموں کے خون سے ہماری دھرتی کو متعدد بار داغدار کیا گیاہے.
دکھ اس بات کا ہے کہ حالات میں سدھار لانے کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں. بعض لوگ تو ایسا بھی سمجھتے ہیں کہ حالات سدھارنے کی سنجیدہ کوششیں نہیں ہو رہی ہیں. خوف یہ ہے کہ اگر اب بھی اس عفریت کا سر نہ کچلا گیا تو اس طرح کے مزید واقعات ہوں گے، خون ناحق بہتا رہیگا اور ہمارے علاقے کی معیشت اسی طرح تباہ و برباد رہے گی اور ہمارے علاقے میں بد امنی اور بے سکونی رہے گی.
ضلع دیامر گلگت بلتستان کا گیٹ وے ہے. اگر یہاں بدامنی رہے گی تو سکون پورے گلگت بلتستان سے غائب ہو جائیگا. ہمارے سیاسی اور انتظامی قائدین کو چاہیے کہ گمراہ کن بیان بازی کرنے اور "مذمتی" قراردادیں اور تعزیتی کملات اخباروں میں شایع کرنے کی بجائے حالات کی نزاکت کا اندازہ کرتے ہوے ٹھوس لائحہ عمل ترتیب دیا جائے تاکہ لاقانونیت کو پھیلنے سے روکا جا سکے.
1 comments:
گلگت بلتستان میں خون بہنے پر دل بہت کُڑھتا ہے ۔ ناجانے کس کی نظر لگ گئی ہے یا کس کو وہاں کا سکون اچھا نہیں لگا ۔ یہ وہ دھرتی ہے جہاں بغیر ایک قطرہ خون بہائے آزادی کا اعلان یکم نومبر 1947ء کو آزاد حکومت قائم ہو گئی تھی ۔ یہ وہ دھرتی ہے جس کے باسی صاف گو اور امن پسند ہیں ۔
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔