Sunday, June 16, 2013

بلوچستان میں خون خرابہ




آج بلوچستان میں ایک بار پھر بہت زیادہ خون خرابہ ہوا۔ ایک یونیورسٹی کی متعدد طالبات ایک بزدلانہ حملے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھی، انکے ساتھ ساتھ راہگیروں اور بولان ہسپتال میں مریضوں کی تیمارداری کرنے والے بہت سارے افراد بھی گولیوں اور بموں کی زد میں آکر جان بحق اور زخمی ہوگئے۔ کوئٹہ شہر کے ڈپٹی کمشنر بھی دہشتگردی کے اس حملے کا شکار بنے،جبکہ میڈیا کے مطابق زخمیوں کی عیادت کرنے کے لئے ہسپتال پہنچنے والے صوبہ بلوچستان کے چیف سیکریٹری، جناب فتح محمد بابر یعقوب اور پولیس کے انسپکٹر جنرل اس اندوہناک واقعے میں بال بال بچے۔ 



آج ہی مشہور سیاحتی مقام زیارت میں دہشتگردوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے آخری ایام کی یاد گار، جو کہ زیارت ریذیڈنسی یا پھر قائد یا جناح ریزیڈنسی کے نام سے مشہور تھا، کو کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی کے مسلح کارکنوں نے راکٹوں اور بموں کے حملے میں شدید نقصان پہنچایا۔ عمارت کو آگ لگ گئی ، لیکن پورے علاقے میں فائر بریگیڈ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے آگ بجھانے کا عمل جلدی شروع نہ ہوسکا اور عمارت کا بڑا حصہ تباہ و برباد ہو گیا۔ 



کتنے دکھ کی بات ہے کہ آج سے چھ دہائی پہلے جب قائد اعظم اس عمارت میں علاج معالجے کے سلسلے میں مقیم تھے تو انہیں اچانک طبعیت بگڑنے کی صورت میں کراچی منتقل کرنے کے لئے صیح حالت میں ایمبولینس موجود نہیں تھا۔ جس ایمبولینس میں ان کو منتقل کیا جارہا تھا وہ راستے میں خراب ہوگیا اور یوں بانی پاکستان کو اپنے آخری لمحات ایک خراب ایمبولینس کے اندر گزارنے پڑے۔ المیہ دیکھیں کہ آج جب انکے قائد اعظم محمد علی جناح کی آخری ایام کی یاد گار شعلوں کی نذر کر دی گئی تھی تواسے بچانے کے لئے فائربریگیڈکی کوئی ایک بھی گاڑی موجود نہیں تھی۔



عمارتیں اور علامتیں قومی زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قوموں کی اصل شناخت ان کے نظریات سے ہوتی ہے ، نہ کہ کسی خاص عمارت یا علامت سے۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمن جنگی جہازوں نے لندن شہر کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔ اسی طرح امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پر ایٹم بم گرا کر تمام عمارتوں اور ان کے مکینوں کو نیست و نابود کردیا، مگر وقت نے دیکھا کہ جاپان نے صرف ان شہروں کو دوبارہ تعمیر کیا بلکہ پہلے سے بہتر بنا کر دنیا کے سامنے پیش کردیا۔ 



کیا ہمارے حکمران زیارت میں قائد اعظم کے آخری ایام کی یادگار عمارت کو بھی دوبارہ ایسا ہی بنا دیں گے؟ بنظر غائر تو ایسا نہیں لگتا۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان چھ دہائیوں میں ملک کے نامور سیاستدانوں ، جرنیلوں اور سول سروس کے ہزاروں افسروں اور ان کے خاندانوں کی مسلسل خدمت کرنے اور خوبصورتی کی داد سمیٹنے کے باوجود زیارت کی قسمت نہیں بدلی ہے اور نہ ہی بدلے گا۔ اس خوبصورت اور دلکش علاقے کی محرومیوں کا سفراب بھی مسلسل جاری ہے۔ اور شائدنااہل حکمرانوں ، جرنیلوں اور بابووں کے نرغے میں قید مملکت پاکستان کی بدقسمتی کا سفر بھی اسی طرح جاری رہیگا۔ 



خون و کشت کا یہ سلسلہ صوبہ بلوچستان میں کافی عرصے سے جاری ہے۔ گزشتہ سال اور موجودہ سال کے اوائل میں کوئٹہ شہر میں ہزارہ شیعہ برادری کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا جسکی وجہ سے قیمتی جانوں کا نقصان ہوا، سینکڑوں خاندان مختلف طریقوں سے متاثر ہوئے، جبکہ پورے ملک میں بے چینی اور غصے کی لہر دوڑ گئی اور لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے۔ اس سارے صورتحال میں پاکستان پوری دنیا کی نظروں میں ایک کمزور ملک کی حیثیت سے ابھرا، جسکے سیاسی اور معاشی نقصانات اپنی جگہ موجود ہیں۔ 



بلوچستان میں بیک وقت دو داخلی محاذوں پر لڑی جانے والی اس لڑائی نے پورے ملک میں ایک تشویشناک صورتحال پیدا کردی ہے۔ ایک طرف مسلح قوم پرست ہیں جو علیحدگی کا نعرہ لگاکر قتل و غارت میں مصروف ہیں، جبکہ دوسری طرف فرقہ پرست تنظیمیں ہیں جو بموں اور گولیوں سے اپنی بات منوانے اور اپنی برتری جتانے کی سعی لاحاصل میں جتے ہوئے ہیں۔ ایف سی اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھی ماوراء عدالت قتل اور اغوا جیسے جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات مسلسل لگائے جا رہے ہیں، اور اسی سلسلے میں پاکستان کی سپریم کورٹ میں ایک مقدمہ بھی زیر سماعت ہے۔

انتظامی نااہلی اپنی جگہ، لیکن یہ مقام غور و فکر ہے کہ بلوچستان میں بعض طبقے اس حد تک ریاست سے بظاہر بدظن اور دلیر ہو چکے ہیں کہ اب انہیں ملک کے بانی کی یاد گار کو تباہ و برباد کرنے میں بھی کوئی عار یا دقت محسوس نہیں ہوتی۔ اس روئے کے محرکات پر غور کئے بغیر اور لوگوں کو درپیش سیاسی و معاشی مسائل کا حل پیش کیے بغیر بلوچستان میں پھیلے بدامنی اور بے چینی کا خاتمہ کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔