یکم مئی پوری دنیا میں ’’یوم مزدور‘‘ کے نام سے منایا جاتا ہے ۔ اس روز محنت اور صلاحیتوں کی عظمت اور مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کے مختلف تقریبات اور جلسوں کا اہتمام کیا جاتاہے۔ مقررین محنت کشوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کرتے ہیں اور سرمایہ داروں اور حکومتی اداروں کی بے حسی، شقی القلبی اور ڈھیٹ پن کا رونا روتے ہیں۔ ہر سال یہ رسم اسی طرح پوری کی جاتی ہے لیکن ترقی پزیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ صنعتی دنیا میں بھی مزدوروں کا استحصال اسی طرح جاری و ساری رہتا ہے۔ آگاہی کے لئے نکالی جانے والی ریلیوں ، سییمنارز، کانفرنسز اور میٹنگز کا روایتی سیٹھوں اور جدید، تعلیمافتہ کارپوریٹ ایگزیکٹیوز پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ شائد اسکی وجہ یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں حکومتیں اور ریاستیں بڑے تجارتی اداروں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ سرمایہ پرست سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ محنت کشوں کو ان کے جائز حق سے محروم رکھتا ہے، اور استحصال کا شیطانی چکر اسی طرح جاری و ساری ہے۔
پاکستان میں تو حالات کچھ زیادہ ہی خراب ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں اگرچہ ٹریڈ یونینز اور طلبہ تنظیوں سے پابندی ہٹائی گئی تھی لیکن اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ ایسے واقعات دیکھنے میں آئے کہ مزدور یونین کے رہنماوں کو ظلم و زیادتی کا نشانہ بنا کر پابند سلاسل کیا گیا، کیونکہ وہ مزدروں کے حقوق کی بات کر رہے تھے۔ ایسا ایک واقعہ فیصل آباد میں پیش آیا جہاں مل کے مالک نے اپنے ذاتی اثرورسوخ کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے چھ مزدور رہنماوں کو ایک جھوٹے مقدمے میں ٤٩٠ سال قید کی سزا دلوادی۔ ایسی سزا کی تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ان مزدور رہنماؤں پر الزام یہ ہے کہ انہوں نے ایک فیکٹری کو آگ لگا دی. لیکن کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مل مالک کو ہڑتالی ملازمین پر فائرنگ سے روکنے کی کوشش کی تھی جس کی پاداش میں ان پر جھوٹا مقدمہ بنایا گیا.
ایک دلخراش واقعہ جس نے دورِ جدید میں مزدوروں کی بے بسی اور انکی لاچاری عیان کر دیا کراچی کے صنعتی علاقے سائٹ میں پیش آیا جہاں کیمیکلز کی ایک فیکٹری میں کام کرنے والے تقریباً تین سوّ (۳۰۰) محنت کش جل کر راکھ ہوگئے ۔ان محنت کشوں کو جانوروں کی طرح فیکٹری کے اندر بند کردیا گیا تھا اور قلعہ نماعمارت کے صدر دروازے کو باہر سے بند کیا گیا تھا تاکہ کوئی مزدور فیکٹری سے باہر نہ جاسکے۔ فیکٹری کے بااثر مالکان اب بھی سزا سے بچے ہوئے ہیں۔محنت کشوں کو کسی طرح کی مالی امداد فراہم کی گئی ہے نہ ان کے گھر کے دوسرے افراد کو ملازمتیں فراہم کی جاسکی ہیں۔
ملک بھر میں لاکھوں بچے اور بچیاں سڑکوں کی خاک چھانتے ہوئے اپنا رزق تلاش کرتے ہیں۔ کچرے کے بڑے بڑے ڈھیروں پر معصوم بچے اور بچیاں رزق ڈھونڈتی نظر آتی ہیں۔تعلیمیافتہ افراد کے بنگلوں اور فلیٹس میں چھوٹے چھوٹے بچے اور بچیاں کام کرتے ہیں اور ہزاروں سماجی برائیوں کا ان کو سامنا ہے لیکن ان لوگوں کا ضمیر سویا رہتا ہے۔ اس سلسلے میں ملکی سطح پر قوانین تو موجود ہیں لیکن ان کا اطلاق ہوتا نظر نہیں آتا۔
پورے ملک میں کام کرنے والی فیکٹریوں، ہوٹلوں، ورکشاپس، دکانوں اور بڑے بڑے اخباروں اور ٹی وی چینلز میں خون اور پسینہ بہانے والوں کو وقت پر تنخواہ نہیں ملتی ،انکی زندگی اور حرمت کی حفاظت کے معقول انتظامات نہیں کئے جاتے اور ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ جنسی حراسیت کی سدباب کے لئے البتہ ایک قانون منطور کر لیاگیا ہے جس سے شائد مختلف اداروں میں کام کرنے والی خواتین کو تھوڑی بہت سہولت مل سکتی ہے۔ لیکن اس قانون کو موثر نہیں بنایا جاسکتا اگر خواتین اس سے آگاہ نہیں ہونگی یا پھر اپنے حقوق کے حصول کے لئے ہمت نہیں باندھیں گی۔
بڑے بڑے کارپوریشنز، کمپنیوں، حتی کہ این جی اوز میں کام کرنے والے محنت کشوں پر بھی ہزار قدغنیں ہیں، انکی اظہار رائے پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں اور ان کو مہر بلب رہنے کی صلاح دی جاتی ہے۔ سرکشی کی صورت میں ملازمتوں سے فارغ کر دیا جاتاہے یا پھر ایسے حالات پیدا کئے جاتے ہیں کہ بندہ خود ملازمت چھوڑ دیتاہے۔ یقیناًیہً ملکی اوربین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے، لیکن اس استحصالی نظام کے خلاف اُٹھنے کو کوئی تیار ہی نہیں ہے۔
الغرض سرمایہ دار طبقہ آج بھی استحصال کی علامت بنے غریب محنت کشوں اور تعلیمافتہ ملازمت پیشہ افراد پر ایک عفریت کی طرح چھایا ہواہے۔ اس نظام سے نکلنے کی ایک امید یہ ہے کہ سماجی انصاف کے لئے انقلابی جدوجہد کی تحریک تیز کیا جائے، لیکن اس محاذ پر بھی کوئی قابل ذکر سرگرمی نظر نہیں آتی ہے۔
آج بھی ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ
’’ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات‘‘
’’ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات‘‘
1 comments:
ایک تلخ حقیقت۔۔۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے
پیتل کی بالیو ں میں بیٹی بیاہ دی
اور باپ کام کرتا تھا سونے کی کان میں
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔