Wednesday, April 24, 2013

ملازمت فراہم کرنے کی آڑ میں کرپشن


وزیر اعلی گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے قومی احتساب بیورو  (نیب) کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوے کہا کہ ہے اگرچہ وہ کرپشن کے سخت خلاف ہیں لیکن لوگوں کو روزگار فراہم کرنا کرپشن نہیں ہے۔ یقینا، یہ بات درست ہے کہ لوگوں کو روزگار کی فراہمی کرپشن نہیں کہلائی جاسکتی۔ بلکہ، حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملازمتوں کے مواقع پیدا کرے اور افرادی قوت کو بہتر طریقے سے استعمال کرتے ہوے علاقائی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے کوشش کرے۔

تا ہم، اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ملازت اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں بھی بھر پور کرپشن کیا جاسکتا ہے، بلکہ اس ننگی کرپشن کے عملی نمونے گلگت بلتستان کے کونے کونے میں پھیلے ہماری حکومت اور ریاست کی کارکردگی کا مذاق اڑا رہے ہیں۔  

ملازت فراہم کرنا اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا بہت اہم ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ روزگارکی فراہمی کس طرح سے ہو رہی ہے؟ کیا قانونی اور اخلاقی تقاضوں کو مد نظر رکھا جا رہاہے؟ کیا سب کو یکساں مواقع فراہم کئے جا رہے ہیں؟ کیا حکومت اور ریاست معاشرے کے تمام طبقات کو اس قابل بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ ملازمت حاصل کرنے کے لئے مقابلہ کر سکے؟ 


میں سید مہدی شاہ صاحب سے گزارش کروں گا کہ اگر وہ گلگت بلتستان کے عوام کے خیر خواہ ہیں اور اگر وہ حقیقت میں کرپشن کے خلاف ہیں تو ان کو خود سے کچھ سوالات پوچھنے چاہیے، تاکہ ان کی اصلاح ہوسکے اور کرپشن کے بارے میں ان کے نظریات بھی درست ہو سکے۔ 


پہلا سوال جو شاہ صاحب کو خود سے پوچھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ملازمت کن کو فراہم کی جارہی ہے؟ کیا معاشرے کے تمام اہل افراد کو ملازمت حاصل کرنے کے لئے شفاف طریقے سے مقابلہ کرنے کا موقع دیا جارہاہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کچھ طبقات اور کچھ علاقوں کو دوسروں پر فوقیت دیا جارہاہے؟ اگر ایسا ہی ہو رہاہے، اگر اندرون خانہ بھرتیاں ہو رہی ہیں اور اگر کچھ طبقات کو دوسروں پر ترجیح دی جارہی ہے تو اس صورت میں  ملازمت کی فراہمی کرپشن میں شمار ہوگا۔ 

دوسرا سوال جو محترم مہدی شاہ صاحب کو خود سے پوچھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ جو ملازمتیں فراہم کی جارہی ہیں، کیاان متعلقہ محکموں میں ان کی ضرورت بھی ہے؟ جن محکموں میں ملازمتیں فراہم کی جارہی ہے، کیا ان محکموں میں مزید افراد درکار ہیں؟ وہ کس طرح کے کام کریں گے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ملازمت فراہم کرنے کی کوشش میں غیر ضروری پوزیشنز پیدا کی جارہی ہیں اور وسائل کا بے جا استعمال کیاجارہے اور ضرورت سے زیادہ افراد کو اداروں میں گھسا کر خزانے پر غیر ضروری بوجھ ڈالا جا رہا ہے؟ اگر ایسا کیا جارہاہے تو یہ کرپشن کی بدترین مثال ہے۔ 

ایک اور سوال جو بطور وزیر اعلی گلگت بلتستان سید مہدی شاہ صاحب کو خود سے پوچھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ بہت زیادہ تعداد میں ملازمتیں فراہم کرنے کی وجہ سے ہمارے کمزور اور غیر مستحکم علاقائی خزانے پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ ایسا تو نہیں کہ ملازمتیں فراہم کرنے کی کوششوں میں وسائل کا غیرمتوازن استعمال ہو رہا ہے اور عوام الناس کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹیں پڑ رہی ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ وزیر اعلی گلگت بلتستان اس بات سے واقف ہوں گے کہ ملازمتیں دینے کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو بنیادی سہولیات، مثلا تعلیم ، صحت، پانی، سڑکوں اور بجلی وغیرہ کی فراہمی بھی حکومت کی ذمہ داری ہے اور ان کاموں کے لئے بھی وسائل درکار ہوتے ہیں! 

چوتھا سوال، جو وزیر اعلی صاحب کو خود سے پوچھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ملازمت کس طور اور طریقے سے فراہم کی جارہی ہے؟کیا ملازمت کے مواقع سارے علاقوں اور سارے طبقات میں یکساں مشتہر ہو رہے ہیں؟ کیا قابلیت کے معیار کا تعین بہتر طریقے سے کیا جارہا ہے ؟ انتخاب کے دوران معیار پر سمجھوتا تو نہیں کیا جارہا ؟ کیا ملازمت دیتے وقت قاعدہ اور قانون پر عمل ہو رہا ہے؟ اصولوں کی خلاف ورزی تو نہیں ہو رہی؟ لوگوں سے رشوت لے کر توان کو بھرتی نہیں کیا جارہا؟ اگر ایسا ہو رہاہے کہ لوگوں سے پیسے لے کر، معیار کے اصولوں کو پامال کر کے من پسند اور صاحب حیثیت افراد کو روزگار اور ملازمت فراہم کی جارہی ہے تو  اس سے بڑی کرپشن کوئی ہو ہی نہیں سکتی ! 

آخر میں وزیر اعلی صاحب اس سوال پر بھی غور فرمائے تو بہتر ہو گا  کہ ملازمتوں کی شفاف اور دیانتداری کے ساتھ فراہمی کے لیے جن اداروں کے قیام کی ضرورت ہے وہ اب تک گلگت بلتستان میں کیوں قائم نہیں کیے جا رہے ؟ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر صوبائی پبلک سروس کمیشن قائم نہیں کیا جارہا؟ اگر آپ کرپشن کے اتنے ہی خلاف ہیں تو تین سال گزرنے کے بعد بھی اس اہم ادارے کے قیام کی کوششیں کیوں نہیں ہو رہیں؟
 
آج قومی احتساب بیورو کے وفد سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلی صاحب نے توجیہہ پیش کی ہے کہ گلگت بلتستان میں روزگار کا واحد ذریعہ سرکاری نوکریاں ہیں۔ میرے خیال میں یہ بات حقائق کے منافی ہے کیونکہ ہزاروں نوجوان کاروبار اور سیاحت سے منسلک ہیں اور رزق کما رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ موجودہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے بدامنی نے سیاحت کے شعبے کو تباہ وبرباد کردیا ہے ، جبکہ بعض انتہائی معتبر کاروباری افراد علاقے سے فرار ہو چکے ہیں اور دوسرے یہاں سرمایہ کاری کرنے سے ڈرتے ہیں۔ 


وزیر اعلی صاحب کو چاہیے کہ اپنی حکومت کی بد ترین کرپشن پر پردہ ڈالنے کی بجائے ایسے دور رس اقدامات اُٹھائے، ایسی پالیسیز بنائے، ایسی جاندار حکمت عملی طے کرے اورحکومت  کا ایسا معیار قائم کرے کہ عوام الناس علاقے کے وسائل سے فائدہ اُٹھانے کے قابل بن سکے اور اپنے لیے روزگار کے مواقع خود پیدا کرے. ۔ دنیا میں کوئی ایسی ریاست نہیں جو روزگار فراہم کرنے کے نام پر ملازمتوں کا نیلام عام کرے ، چندصاحب حیثیت (رشوت دینے کی سکت اور ہمت رکھنے والے) اور من پسند افراد کو ناجائز طریقے سے ملازمتیں فراہم کر ے اور پھر اپنی سیہ کاری کی توجیہہ پیش کرنےکے لیے مضحکہ خیز کوششیں کرے۔ 

گلگت بلتستان کے عوام نے موجود سیاسی سیٹ اپ بہت مشکلات اور قربانیوں کے بعد حاصل کی تھی۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ موجودہ حکومت کے بدعنوان اور ڈھیٹ وزرا نے اسے مکمل طور پر ناکام کرنے اور عوام الناس کو اس کے فوائد سے محروم رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ایک موہوم سی امید البتہ یہ ہے کہ قوم کو ملازمتیں فراہم کرنے کے نام پر خزانے کو لوٹنے اور اپنے جیبوں کو گرم کرنے اور اپنے پیاروں کو نوازنے والوں کو گریبان سے پکڑ کر ان سے حساب لیا جائے۔ اور یہ کام قومی احتساب بیورو (نیب) کر سکتی ہے۔ بشرطیکہ اسے آزادی سے کام کرنے دیا جائے۔ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو عوام الناس اسی طرح محروم رہیں گے اور ان کو ملازمت اور روزگار فراہم کرنے کے نام پر چند افراد کرپشن کا بازار گرم کرتے رہیں گے اور ملازمت فراہم کرنے کے زعم میں ہم پر احسان بھی کرتے رہیں گے۔

مجھے یقین ہے کہ وزیر اعلی صاحب اس بلاگ کو نہیں پڑھینگے۔ اور اگر پڑھ بھی لے تو اسے نظر انداز کریں گے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کار حکومت درست نہیں ہونگے جب تک ہمارے رہنما اپنے اہداف اور اپنی نیتیں درست نہ کرے۔ 

8 comments:

Unknown نے لکھا ہے کہ

کاش یہ باتیں ہمارے معصوم وزیر اعلٰی صاحب کے سمجھ میں آجاتیں۔۔۔۔ لیکن مجھے یقین مسمم ہیکہ کم از کم اقتدار میں جب تک ہیں یہ باتیں سمجھ نہیں آینگی۔۔۔
مٹ جائے گی مخلو ق تو انصاف کروگے۔۔۔

Unknown نے لکھا ہے کہ

Well done Noor,you have discussed a very important issues but the problem is that the illiterate CM even cannot read such facts and figures, but keep up your valuable efforts for such a noble causes.

Anonymous نے لکھا ہے کہ

یہ کتے کا دم ہے اس کو کہاں سمجھ آے گی۔ مہدی شاہ کو پابند سلاسل کرنا چاہیے، یہ گلگت بلتستان کا پہلا شخص ہے جس نے فرقہ واریت کو ہوا دی

علی احمد جان نے لکھا ہے کہ

بہت خوب نور بھائی۔۔۔۔

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے کہ

آپ نے نہائت اہم قومی سوال اُٹھائے ہیں ۔ اللہ آپ کو سیدھی راہ پر قائم رکھے اور آپ کی حفاظت فرمائے
گرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حُکمِ اذاں لا الہ الاللہ

Noor Pamiri نے لکھا ہے کہ

بلاگ وزٹ کرنے اور اپنی رائے کا اظہار کرنے پر آپ کا ممنون ہوں افتخار بھوپالی صاحب۔ دعاوں کے لئے شکریہ

Hussain Nagri نے لکھا ہے کہ

بہت خوب نور بھائی۔

Noor Pamiri نے لکھا ہے کہ

بہت شکریہ حسین نگری، تاج خلیل رومی، ممتاز حسین گوہر اور علی احمد جان۔

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔