مملکت خداداد پاکستان میں انتخابات کی آمد آمد ہے. گلی محلوں میں بڑے بڑے پوسٹرز اور بینرز کی بھر مار ہے. رکشوں، کاروں، لینڈ کروزرز اور ٹرکوں پر ہنستے مسکراتے، پر عزم اورفضاء میں بازو لہراتے امیدواروں کی تصویریں لگ رہی ہیں. بہت سارے من چلے دیو قامت لاوڈ سپیکرز لگائے فضاء کو اپنے نغموں اور پیغامات سے بھر رہے ہیں. غرض ایک جشن کا سماں ہے. اور کیوں نہ ہو. جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ تمام امیدواروں اور ووٹرز کو کھل کر اپنے خیالات کی تشہیر کا موقع ملے.
تاہم کچھ پارٹیز، جن کو لبرل اور "آزاد خیال" یا "سیکولر" گردانا جاتا ہے عتاب کا شکار ہیں. ان کے امیدواروں پر حملے ہو رہے ہیں اور ان کو الیکشن سے روکنے یا انکی اس جمہوری عمل میں شمولیت کو غیر موثر بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں. اس تناظر میں بعض افراد یہ بھی الزام لگا رہے ہیں کہ یہ حملے اور ان امیدواروں کو اپنے کمپین سے دور رکھنے کی کوشش پری پول رگنگ ( یعنی انتخابات سے قبل دھاندلی) کے مترادف ہے. یہ موضوع توجہ طلب ہے لیکن آج میری گزارشات کسی دوسرے موضوع پر مرکوز ہیں.
گلگت بلتستان کے رہائشی ہونے کی وجہ سے میں اور میرے جیسے لاکھوں افراد پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ رکھنے کے باوجود ہمیشہ کی طرح اس قومی جمہوری عمل سے باہر ہیں. قومی اسمبلی اور سینٹ میں بیٹھے صاحبان اور صاحبات ہماری تقدیر کا فیصلہ تو کرسکتےہیں لیکن ہمارے ووٹ سے منتخب ہو کر نہیں آتے. آسان الفاظ میں یہ کہ گلگت بلتستان کا کوئی بھی نمائندہ قومی اسمبلی اور سینٹ کا ممبر نہیں بن سکتا.
لیکن اسکا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ ہم حق رائے دہی سے یکسر محروم ہیں. ہمارے نمائندے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں براجمان ہیں، لیکن انکی قانون سازی کی صلاحیت اور استعداد انتہائی محدود ہے اور ان کے پر بیوروکریسی کے آگے جل جاتے ہیں!
اس محرومی کے باوجود گلگت بلتستان کے نوجوانوں کو مختلف وفاقی پارٹیوں کے الیکشن کمپین میں مصروف دیکھا جا سکتا ہے. سماجی وابطے کے ویب سائیٹس پر متحرک یہ سیاسی کارکنان اپنی پارٹیوں کے حق میں بھر پور کمپین چلا رہے ہیں، یہ جانتے ہوے بھی کہ قانونی طور پر وہ ووٹ دینے کے قابل نہیں ہیں.
جب ان نوجوانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ ووٹ دینے کے لیے نااہل ہونے کے باوجود وہ وفاتی پارٹیوں کے کمپین میں اتنے جوش و خروش سے کیوں حصہ لیتے ہیں تو بیشتر کے پاس کوئی واضح جواب نہیں وتا لیکن بعض کہتے ہیں کہ وہ خود ووٹ نہ بھی دے سکے تو دوسروں کو تو متوجہ کر سکتے ہیں. ان متحرک نوجوانوں کو امید یہ ہے کہ کوئی ایماندار رہنما پاکستان کا حکمران بنا تو شاید گلگت بلتستان کی تقدیر بھی بدل جائے اور اسکی آئینی حیثیت کا تعین ہو جائے.
آیا ان نوجوانوں کی امیدیں پوری ہوجاتی ہیں یا نہیں، اسکا فیصلہ تو وقت ہی کریگا. تاہم اتنا ضرور ہے کہ یہ متحرک اور توانائی سے بھر پور نوجوان ان وفاقی پارٹیوں کے اندر رہتے ہوے گلگت بلتستان کی محرومیوں کی تشہیر کر سکتے ہیں. اور اپنے ساتھیوں اور رہنماؤں کو سمجھا سکتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو حقوق سے محروم رکھنا کسی بھی طرح پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے.
5 comments:
very true, indeed
very nice peace for the youth of GB. Youth of GB should focus and strengthen the local parties first and try to divert the international media why we are only spectators of Pakistani Elections. We need vote for National Assembly and Provincial assemblies not for puppet and under bureaucracy rule legislative counsel. we need to boycot all Pakistani parties.
بہت خُوب نُور بھائی، لیکن کیا وفاقی سیاسی جماعتوں کے اندر رہتے ہُوئے ایسا کرنا ہمارے نوجوانوں کے لئے مُمکن ہے؟
عنایت ۔۔۔۔ ایک ہلکی سی اُمید ہے کہ شائد نوجوان ایسا کر سکے ۔۔۔۔ شائد
ہمیشہ کی طرح۔۔ بہت اچھا نور بھائی۔ لکھتے رہیں اسی طرح
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔