Sunday, February 17, 2013

عقل اور دلیل ۔۔۔ یا پھر ہتھیار؟


کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں لوگوں کو صرف اس لئے مارا جاتاہے کہ ان کے دین اسلام کو سمجھنے کا طریقہ الگ ہے۔ اگر "علما" اور فقہاکی یہی حرکتیں جاری رہی تو بہت ممکن ہے کہ کہ نوجوان طبقے دین سے کنارہ کشی اختیار کر کے لادینیت کی طرف چلے جائیں گے۔ پوری دنیا میں ویسے بھی مذہب کے "دقیانوسی فلسفوں" سے بیزار طبقے لادینیت (Athiesm ) کی طرف جا رہے ہیں۔

ان مشکل حالات میں منطق، علم اور دلیل کے ذریعے دعوت دینےکی بجائے بندوقوں کا سہارا لے کر خلاف منطق کام کیا جارہا ہے۔

بنظر غائر ایسا لگتا ہے کہ کچھ طبقے اس دور کے جدید حالات، جدید معاشرے کی گونا گونی اور فکری تنوع کے تناظر میں ابھرنے والے جدید سوالات کا فکری اور علمی جواب دینے سے قاصر ہیں، اسلئے وہ اپنی رائے بندوق کے نوک پر مسلط کر کے "کامرانی" حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

 یقینا اس اندوہناک اور غیر انسانی "کھیل" میں ہلاکت اور شکست کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں کچھ تنظیمیں فرقہ وارانہ فسادات میں اس قدر بیباکی کے ساتھ مشغول ہیں کہ وہ بہ بانگ دہل مخالفین کو دھمکیاں دیتے ہیں اور اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ آگے بڑھ کر قتل عام بھی کرجاتے ہیں۔

ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ کوئٹہ شہر میں تقریبا ایک سو پندرہ شہری ایک خوفناک بم دھماکے کی زد میں آکر جان بحق ہو گئے۔ مرنے والوں میں دونوں فرقوں کے لوگ شامل تھے لیکن ایک بہت بڑی تعداد کا تعلق شیعہ فرقے کے ہزارہ برادری سے  تھا۔ ان مظلوموں کے حق میں پورے ملک میں مظاہرے ہوئے، سارے بڑے شہروں اور قصبوں میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور حکومت پر اتنا دباو پڑا کہ صوبہ بلوچستان کی منتخب اسمبلی کو تحلیل کرکے گورنر راج نافذ کرنا پڑا۔

اس کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی کہ قانون نافذ کرنے والے متحرک ہو جائیں گے اور دہشت پسند تنظیموں کے خلاف ایکشن لیا جائیگا، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ان تنظیموں کے قائدین دندناتے ہوئے پھرتے ہیں اور کھلے بندوں قتل عام کی دھمکیاں دیتے ہیں لیکن نہ تو عدالتیں ٹس سےمس ہوتیں ہیں نہ ہی حکومت اور ریاست کے کرتا دھرتا ہوش میں آنے کے لئے تیار ہیں۔

اس تغافل کا نتیجہ ہے کہ آج پھر کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے ایک رہائشی عمارت کو دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ معلومات کے مطابق تقریبا 72 افراد جان بحق ہو چکے ہیں اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہیں۔

ملک کے حکمرانوں اور پالیسی ساز افراد کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس طرح کی آئے روز کی ناکامیاں ریاست کی کمزوری  کا باعث بنتی ہیں اور انکے نتائج خوفناک ہو سکتے ہیں۔ حکومت، ریاست اور عوام کو ان دہشتگردوں کے خلاف اتحاد بنا کر ان کو معاشرے سے علیحدہ کرنا چاہیے اور پھر ایک بے رحم آپریشن کے زریعے اُن عناصر کا قلع قمع کرنا چاہیے جو فرقہ وارانہ فسادات اور قانون شکنی سے باز آنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس میں تمام شدت پسندوں کو شامل کرنا چاہیے،خواہ ان کا تعلق کسی بھی جماعت یا گروہ سے ہو۔ اس کام میں جتنا دیر کیا جائیگا اتنا ہی ملک اور ریاست کو نقصان اُٹھانا پڑیگا۔ 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔