کمرے میں وہ اتنی
آہستگی سے داخل ہوئی کہ مجھے شک تک نہیں گزرا۔
شک گزرتا بھی کیسے، اندر ماحول ہی ایسا بنا ہوا تھا۔ جا بجا بکھری تاریں، میلا
سا سرہانہ، مڑی تڑی چادریں اور بیچ میں سے دھنسا ہوا رنگ اڑا ’فوم‘، دیواروں پر ادھر
اُدھر لٹکے کپڑے، کونے کھدروں سے جھانکتی، ایک دوسرے میں اڑسی ہوئی، میلی کچیلی جرابیں
اور ہمسائے میں کتوں کی بند نہ ہونے والی آوازیں۔
اور اس ماحول میں بے نیازی سے
لیٹا ہوا میں نیم دلی کے ساتھ میوزک کے شور میں غرق فیس بک پر جاری ایک بحث دیکھ رہا
تھا۔ بحث میں حصہ لینے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ موضوع ہی ایسا ’متنازعہ‘ سا تھا ۔ کچھ
بھی کہتے ہوئے ہزاروں خوف اور وسوسے ایک ساتھ جنم لیتے تھے۔ فیس بُک مباحثہ ایک ایسے
تہوار کے متعلق ہو رہا تھا جسے من چلے تہوار محبت، اخلاق پسند طبقے مکروہ، مذہبی طبقے
گناہ اور بندوق بدست جنونی طبقے قابل سزا شیطانی عمل قرار دیتے ہیں۔ بہت عرصے تک بحث
کو دیکھنے اورحیران و پریشان خیالات سے محظوظ ہونے کے دوران شائد میری آنکھ لگ گئی
۔
کچھ عرصے بعد احساس ہوا کہ وہ میرے پاس بیٹھی، غور سے میرے چہرے کی طرف
دیکھ رہی ہے۔اس کی شکل و صورت بلکل ویسی ہی تھی جیسے میں نے اُسے پہلی اور آخری بار
دیکھا تھا۔ شریر سی مسکراہٹ جو ہمیشہ ان کے چہرے پر رقصاں رہتی تھی، گول چہرہ اور نمناک
و خوابیدہ آنکھیں۔ وضع قطع سے وہ ایرانی یا تاجک لگتی تھی۔ قد درمیانہ سا تھا۔
ہاں، لیکن اس دفعہ
کپڑے انہوں نے الگ سے پہنے تھے۔ باریک ، دودھیا سفید اور ہلکی سی قمیض اور لمبی اتنی
کہ زمین کو چھوتا ہوا۔
اسکا لہجہ بھی کافی الگ سا لگ رہاتھا۔
میں زیادہ دیر تک
کچھ کہہ نہ پایا تو وہ بول پڑی۔
کیوں پریشان پریشان
رہتے ہیں آپ؟
میں کیا کہتا۔ چُپ
ہی رہا۔
’بولیں نا‘، اسکی آواز دھیمی لیکن ضد سے
بھر پور تھی۔
میں پھر بھی خاموش
رہا۔
’اچھا چلیں آپ خاموش رہیں۔ لگتا ہے کہ میرا
یہاں آنا آپ کو اچھا نہیں لگا ہے۔ میں چلی جاتی ہوں‘۔
’نہیں، نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ پلیز
آپ جانے کی بات نہ کریں‘، میں تڑپ اُٹھا۔
’آپ اتنے عرصے بعد آئی ہیں اور ابھی سے جانے
کی باتیں کر رہی ہیں‘، میرا لہجہ روہانسا اور آواز میں شکایت تھی۔
’دیکھا، میں اب بھی آپ کو بولنے پر مجبور
کر سکتی ہوں‘، وہ فاتحانہ انداز میں مسکر ائی۔
وہ ٹھیک کہہ رہی
تھی۔ میری خاموشی توڑنے کا ہنر ان سے زیادہ کسی کو نہیں آتا تھا۔
’آنے کے لئے آج کا دن کیوں منتخب کیا آپ
نے‘، میں نے موضوع بدلنے کی خاطر سوال کیا۔
’کیوں؟ آج نہیں آنا چاہیے تھا مجھے؟‘، اسکا
انداز طنزیہ تھا۔
’نہیں، نہیں۔ ایسی بات نہیں ہے۔ آپ جب آنا
چاہے آسکتی ہیں‘۔
میرے دل میں خواہش تو یہی تھی کہ وہ ہمیشہ میرے ساتھ رہے، لیکن مجھے یہ
بھی پتہ تھاکہ ایساہونا ممکن نہیں۔ اسلئے یہ خواہش زبان پر بھی نہیں لاتا تھا۔ اپنے
تئیں اپنا بھرم رکھتا تھا۔
’خیر، میں اسلئے آئی تھی کیوں کہ آج ویلنٹائن
ڈے ہے‘، وہ مجھے دوبارہ سوچوں میں غرق ہوتے دیکھ کر جلدی سے بولی۔
مجھے حیرت ہو رہی
تھی۔
ویلنٹائن ڈے تو اپنے محبوب کے ساتھ منایا جاتاہے۔ اور جہاں تک مجھے یاد
ہے میری تمام تر خواہشوں کے باوجود انہوں نے مجھے محبوب بننے کا شرف نہیں بخشا تھا۔
’اچھا‘۔
اس سے زیادہ میرے
منہ سے کچھ نہیں نکل سکا۔
’ہان جی‘، انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں
مسکراتے ہوئےکہا۔
وہ ہاں کو ہمیشہ ’ہان‘ کہتی تھی۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی
تھی کہ اس سے آگے کیا کہوں۔
وہ زچ ہو رہی تھی۔
’دیکھا، میں کہتی تھی نا کہ آپ انتہائی بورنگ
قسم کے بندے ہیں‘۔
’جی‘، میں نے ان سے اتفاق کیا۔
’اچھا!
پھر، سڑو یہی پر۔
میں جارہی ہوں۔ ‘
ابھی میں نے کچھ
کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا کہ وہ غائب ہوگئی۔
میں ہڑبڑا کر اٹھا۔
کمرے میں کوئی نہیں
تھا۔ میوزک چل رہا تھا۔ کمپیوٹر کی گھڑی میں ۲ بج کر اکیس منٹ ہوے تھے۔
فیس بک پر بحث جاری
تھا۔
میرا گردن اکڑ ساگیا تھا اور کمر میں بھی درد محسوس ہو رہا تھا۔ کرسی پر سوتے سوتے کافی وقت گزر چکا تھا۔
میری ویلنٹائن واپس
جا چکی تھی۔
میں نے فون اُٹھایا
اور ان کا نمبر ڈائل کیا۔ کافی دیر تک کوئی رسپانس نہیں ملا۔ دوسری اور پھر تیسری دفعہ
نمبر ملانے کے بعد انہوں نے جواب دیا۔
خیریت؟ آپ نے اس
وقت فون کیوں کیا ہے؟ٗ، وہ کافی غصے میں لگ رہی تھی۔ شائد میں نے انہیں نیند سے جگا
دیا تھا۔
’وہ ۔۔۔۔۔آپ اچانک واپس چلی گئی نا، اسلئے
میں نے سوچا کہ معذرت کرلوںٗ۔
’کوئی بات نہیں۔ اب آپ سوجائئںٗ۔
انکی آواز کافی دور
سے آرہی تھی۔
’میں اگلے سال پھر آوں گیٗ۔
یہ کہہ کر اس نے
فون بند کردیا۔
میں نے موبائل فون
میز پر رکھنے کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا اور میرا ہاتھ میز کے کونے سے ٹکرا گیا۔ چوٹ لگنے پر میری آنکھ کھل گئی۔ میرے ہاتھ
میں موبائل نہیں تھا۔
شائد میں ایک خواب
سے نکل کر دوسرے خواب میں داخل ہوا تھا۔ اور پھر چوٹ کی وجہ سے جاگ اُٹھا تھا۔
اب مجھے اگلے ویلنٹائن
ڈے کاانتظار ہے۔ اس نے آنے کا وعدہ جو کر رکھا ہے۔
9 comments:
ہاہ۔۔۔۔۔
Noor bhai good written,,,, full of suspense and thrill, plot goes high then suddenly anti climax.
شکریہ شاکر بھائی۔۔۔۔ کہانی گڑنے کی پہلی کوشش تھی ۔۔۔
شکریہ ظفر ۔۔۔ میں اردو افسانہ نگاری کے آداب اور رموز سے زیادہ واقف نہیں ہوں۔ پتہ نہیں اس کہانی کی ادبی حیثیت کیا ہوگی ۔۔۔ ہاہاہاہا
کوئی آپ کے اس خیال کو آوارہ خیال کہہ دے،میری خیال نا چیز کو تو ایسی کوئی خیال سمجھ ہی نہیں آرہی جس خیال کو لے کے میں آپ کے اس خیال حسیں کوکسی خیال سے تشبیہ دے سکوں۔
نور بھائی ۔۔۔جس کی پہلی کوشش ہی ایسی ہو ۔۔۔ آئندہ کی کوششیں کیسی ہونگی۔۔۔ بہت ساری دعائیں۔
بہت شکریہ گوہر ۔۔۔۔ :-)
زرہ نوازی کے لئے مشکور ہوں :-)
bht khubsurat,
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔