بداعتمادی اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب ایک طبقہ امن کی باتیں کرنے والوں اور اخوت کی تلقین کرنے والوں کو بھی کسی نادیدہ قوت کا ترجمان سمجھنے لگا ہے. ان کو لگتا ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی دانش اور اپنی فراست سے کام نہیں کر سکتا، اپنی دھرتی کو آگ سے بچانے کی کوشش نہیں کر سکتا، بلکہ کسی اور کے اشارے پر اچھی باتیں کر رہا ہے، یا اچھائی کی تلقین کر رہا ہے .
یہ رجحان انتہائی خوفناک ہے اور اسکے بے شمار سماجی و معاشرتی مضمرات ہیں. امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تو قرآن پاک کی تعلیمات کا حصہ ہے. انسانی جذبات اور احساسات کا خاصہ بھی یہی ہے کہ تباہی اور بربادی کے راستے پر چلنے کی بجائے امن، اخوت، محبت، برد باری، اور صلح جوئی کا انتخاب کرے. اچھائی کی تلقین کرنے والوں کی دل شکنی کرنے کی باتیں امید کی آخری کرنوں کو بجھا دینے کے مصداق ہے. اس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا.
یہ رجحان انتہائی خوفناک ہے اور اسکے بے شمار سماجی و معاشرتی مضمرات ہیں. امر بالمعروف اور نہی عن المنکر تو قرآن پاک کی تعلیمات کا حصہ ہے. انسانی جذبات اور احساسات کا خاصہ بھی یہی ہے کہ تباہی اور بربادی کے راستے پر چلنے کی بجائے امن، اخوت، محبت، برد باری، اور صلح جوئی کا انتخاب کرے. اچھائی کی تلقین کرنے والوں کی دل شکنی کرنے کی باتیں امید کی آخری کرنوں کو بجھا دینے کے مصداق ہے. اس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا.
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔