Tuesday, March 13, 2012

سانحہ کوہستان میں دونوں اسباق ہیں. اختیار ہماراہے

سانحہ کوہستان خیر اور شر کے درمیان معرکہ ثابت ہوا ہے. 


 اس سانحہ میں بہت ساری کہانیاں  اور اسباق چھپی ہیں. ایک طرف بربریت اور سفاکیت کی داستان رقم کی جاتی ہے، تو دوسری طرف رحمدلی، ہمدردی، بھائی چارگی اور انسانیت پرستی کی اعلی مثال قائم کی جاتی ہے.

 ایک طرف بندوقوں والے دہشتگرد نہتے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنے حساب سے "کامیاب " ہوتے ہیں. ارض خدا کی  خاک کو  مخلوق خدا کے خون میں بھگونے والے ان لوگوں کو شاید لگتا ہے  کہ انہوں نے کوئی معرکہ سر کر لیا ہے اور اسی زعم میں بقول میڈیا وہ اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں. بعد کے واقعات  البتہ ثابت کرتے ہیں کہ  وہ اپنی طاقت  کے بل بوتے پر محض  بیگناہ لوگوں کی زندگیاں لے سکے. نہ تو انہوں نے کسی کے جذبہ ایمانی کو متاثر کیا، نہ  انسانی جذبہ ایثار اور ہمدردی کو گزند پہنچا سکے اور  نہ  ہی کسی کو خوفزدہ کر   سکے. صرف لعن طعن کا شکار ہوے. اور ابھی نہ جانے کہاں چھپے ہوے ہیں، تاکہ قانون کے شکنجے سے خود کو بچا سکے. 

اور دوسری طرف اصل ہمدردی اور انسان دوستی کی مثال، جو علاقہ دیر سے رکھنے والے اس محنت کش نے قائم کی جو اپنی تمام بشری کمزوریوں کے باوجود  ظلم کے خلاف کھڑا ہوگیا. جس نے ظالموں کو للکارا اور کہا کہ جو کام وہ کرنے جارہے ہیں وہ نہ صرف غلط ہے، بلکہ غیر اسلامی بھی.


"جابروں کے سامنے کلمہ حق" کہتے ہوے یہ مجاہد شہید ہو گیا. باطل پر اڑے بندوق والے اس کے منہ سے نکلنے والے سچ کو سننے کی سکت نہیں رکھتے تھے، اسلیے انہوں نے اس شخص کو شہید کر دیا. 

ہمدردی اور انسان دوستی کی دوسری مثال گلگت کے علاقے کشروٹ سے تعلق رکھنے والے شخص نے دی. اپنے ساتھ بیٹھے مسلمان بھائی کو بچانے کے لیے اس نے کہا کہ یہ میرا حقیقی بھائی ہے اور میں اسے ہسپتال سے لے کر آیا ہوں. قاتلوں نے پوچھا کہ اس کے پاس شناختی کارڈ کیوں نہیں ہے تو اس دانا اور ہمدرد شخص نے کہا  وہ دستاویز ہسپتال میں جمع کر دی گئی ہے.


حق کی نصرت ہوئی اور ایک مظلوم کی جان بچا لی گئی. جان بچانے کے لیے خود کو خطرے میں ڈالنے والا ااہلسنت کا فرد اور جسکی جان بچ گئی اسکا تعلق اہل تشیع سے. 

پھر اہلیان وادی نگر کا ایثار اور ان کی  انسان دوستی دیکھیں، کہ نہتے اور مجبور  کوہستانی مزدوروں کو حفاظتی تحویل میں لینے کے بعد بخیر و عافیت سرکاری اہلکاروں تک پہنچانے کا اہتمام بھی کیا. 

نوجوانوں اور معاشرے کے دوسرے افراد کے کے لیے  ان واقعات میں اسباق ہیں. 


ہم اسے  فرقوں کے درمیان تفاوت اور عداوت ،اختلاف اور نفرت کے پہلو سے بھی دیکھ سکتے ہیں اور دونوں فرقوں کے افراد کی ایک دوسرے کو بچانے کی کوششوں کے حوالے سے بھی. 


ہمیں غور کرنا ہو گا اس اندوہناک سانحہ کے دونوں پہلووں پر. اس میں خیر بھی ہے اور اس واقعے کی وجہ سے  شر کا پہلو بھی نکل سکتا ہے.


انختاب ہماراہے.


  اگر ہم چاہے تو خیر کے پہلو کو سامنے رکھ کر انسان دوستی،  بھائی چارگی اور جذبہ ایثار کو فروغ دے. اگر ہم چاہے تو انتقام اور نفرت کی آگ کا ایندھن بن جائے . 

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Your comment is awaiting moderation.

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔