خاتون کے لہجے میں بہت تلخی تھی. وہ
"""ان کو بد دعائیں دے رہی تھی. غصہ بجا تھا. خاتون کے دو بیٹے انسانی
ڈھانچوں میں بدل چکے تھے. ایک کے ہاتھ میں پلاسٹک بیگ تھا جس میں وہ پیشاب کرتا
تھا. دوسرا بھی دنیا سے بیگانہ سا لگ رہا تھا.
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ان کے حالات
دیکھے تو کہا کہ خدا کا خوف کریں. ایک دن سب نے جواب دینا ہے. قیدیوں کے ساتھ ایسا
سلوک نہیں کیا جاتا. اگر مجرم ثابتبھی ہو جاۓ تو مناسب کپڑے اور خوراک مہیا کیا
جاتا ہے. یا پھر سزاۓ موت دی جاتی ہے.
لیکن اس کیس میں تو کسی کو سزا نہیں ہوئی ہے. مقدمہ بھی نہیں چلا تھا. عدالت نے تو ان کو بلانے کے لیے بھی ہزاروں جتن کیے. دھکمیاں دیں. کورٹ کے اندر کئی گھنٹے
انتظار کیا.
وکیل تو یہ تک بتانے سے قاصر تھا کہ قیدیوں کو اڈیالہ جیل سے "اٹھانے" کے بعد کہاں رکھا جا رہا ہے. نہ ہی یہ جواب صوبے کے اعلی ترین سول افسر، چیف سیکریٹری، کے پاس تھا.
وکیل تو یہ تک بتانے سے قاصر تھا کہ قیدیوں کو اڈیالہ جیل سے "اٹھانے" کے بعد کہاں رکھا جا رہا ہے. نہ ہی یہ جواب صوبے کے اعلی ترین سول افسر، چیف سیکریٹری، کے پاس تھا.
خاتون کا تیسرا بیٹا پراسرار حالت میں مردہ پایا گیا تھا. اس کے
علاوہ بھی دو افراد مردہ حالت میں ملے تھے. کسی کے جسم پر تشدد کا نشان نہیں تھا. حکام نے بتایا کہ موت "قدرتی وجوہات" سے ہوئی. لیکن عدالت مطمئن نہیں
تھا.
زندوں کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم صادر ہوا. ہفتہ وار طبی رپورٹ شیر کرنے کا حکم دیا گیا.
زندوں کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم صادر ہوا. ہفتہ وار طبی رپورٹ شیر کرنے کا حکم دیا گیا.
آج صبح آفس آتے ہوے دوست کی کار میں لگے ریڈیو
پر خاتون کی آواز سنی. "یہاں ان کو جو کرنا ہے کر لے. اصل حساب تو وہاں ہو گا. وہاں میں ان کے گریبان نہیں چھوڑوں گی".
بی بی سی کی ریڈیو سروس سے ںشر ہونے والی ان کی آواز میں کرب تھا. اور غصہ بھی.
بی بی سی کی ریڈیو سروس سے ںشر ہونے والی ان کی آواز میں کرب تھا. اور غصہ بھی.
"انہوں نے اصل لوگوں کو چھپا دیا ہے، اور بیگناہوں کو آگے کر رہے ہیں". خاتون کی آواز نے الزام لگایا.
میرے دوست نے کہا، "مائیں تو ایسی ہی ہوتیں ہیں. یہ اپنے سب بچوں کو شریف سمجھتی ہیں. اور کوشش ان کی یہی ہوتی ہے کہ جیسا بھی ہو ان کے بچوں پر آنچ نہ آئے".
انکی یہ دلیل سن کر مجھے وفاقی وزیر داخلہ، رحمان ملک، کی بات یاد آگئی. انہوں نے پچھلے دنوں کہا تھا کہ گلگت سے تعلق رکھنے والی ایک ماں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے اپنے ایک بیٹے کی "مخبری" کی تھی. کیونکہ ماں سمجھتی تھی کہ اسکا بیٹا دہشتگردی میں ملوث ہے.
خبر یہ ہے کہ وہ خاتون، جسکی آواز بی بی سی سنا رہی تھی، مر چکی ہے.
بی بی سی کے مطابق اس خاتون کی موت اپنے دو بیٹوں کی حالت دیکھ کر "صدمے" کی وجہ سے ہوئی تھی. شاید خاتون کو اپنے دوسرے بیٹوں کی موت کا اندیشہ تھا. شاید اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اپنے دوسرے دو بیٹوں کی موت سے پہلے وہ خود ہی مر جاۓ.
بی بی سی کے مطابق اس خاتون کی موت اپنے دو بیٹوں کی حالت دیکھ کر "صدمے" کی وجہ سے ہوئی تھی. شاید خاتون کو اپنے دوسرے بیٹوں کی موت کا اندیشہ تھا. شاید اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اپنے دوسرے دو بیٹوں کی موت سے پہلے وہ خود ہی مر جاۓ.
گرفتار شدگان مجرم ہو سکتے ہیں. انہوں نے شاید
جرم بھی کیا ہو. یہ کسی معمولی جرم کے سلسلے میں قید میں نہیں ہیں. ان پر ملک کے دفاعی نظام کے اہم ترین مرکز پر حملے کا الزام ہے. جی ہاں. لیکن بظاہر یہ ابھی تک صرف الزام ہے. جرم ثابت نہیں ہوا ہے.
عدالتی نظام کی موجودگی میں ملزموں کو غیر قانونی حراست میں رکھنا بھی سمجھ سے باہر ہے. کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کے اعلی ترین عدالتوں سے بھی مجرم چھوٹ جاتے ہیں اور پھر ملک اور
سماج دشمن کاموں میں ملوث ہو جاتے ہیں. شاید یہ بھی ٹھیک کہتے ہوں گے. عدالتی نظام
میں یقیناً بہت ساری خرابیاں ہونگی. لیکن اگر ملکی ادارے غیر قانونی کام کرنے لگ جاۓ تو
کیا عدالتیں ٹھیک ہو جائینگی؟ کیا ملک میں قانون کی بالا دستی کا خواب شر مندہ تعمیر ہو سکےگا؟
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔