سیلاب کے موسم کی آمد آمد ہے. بلتستان کے گاؤں تلس کے باسیوں پر تو ایک قیامت گزر بھی چکی. ٦٠ خاندان اپنے گھروں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں.١٢٩ خاندانوں کو نسبتا محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے. ریلیف کا شور ہے. حکومت، غیر حکومتی ادارے اور کچھ فلاحی ادارے بڑھ چڑھ کر "متاثرہ " افراد کی مدد کو پہنچ رہے ہیں. بعض ثواب دارین حاصل کرنے کے لیے، اور بہت سارے اچھی تصویروں اور تحریروں کے لیے، تاکہ ضخیم رپورٹس کا پیٹ بھرا جا سکے، اور ڈونرز کی "توجہ" حاصل کی جاسکے.
اندوہناک "انسانی کہا نیاں " تراشی جائینگی، دردناک تصویروں سے رپورٹوں کو مزین کیا جائیگا، کچھ مہینوں تک امداد کا غوغا سنائی دے گا، اور تب تک کسی اور جگہ پر "قدرتی آفت" رونما ہو گا. اس کہانی سے آپ بخوبی واقف ہیں.
سچ پوچھیں تو یہ سارا معاملہ کسی تھرڈ کلاس پاکستانی یا ہندوستانی فارمولا فلم کی طرح ہے. دیکھنے والوں کو شروع سی ہے معلوم ہوتا ہے کہ فلم کی کہانی کب کونسا رخ اختیار کر لے گی. یقینآ ایسی ہر کہانی سسپنس نامی چیز سے خالی ہوتی ہے، اسی لیے ایسی فلمیں کامیاب بھی نہیں ہوتیں
سچ پوچھیں تو یہ سارا معاملہ کسی تھرڈ کلاس پاکستانی یا ہندوستانی فارمولا فلم کی طرح ہے. دیکھنے والوں کو شروع سی ہے معلوم ہوتا ہے کہ فلم کی کہانی کب کونسا رخ اختیار کر لے گی. یقینآ ایسی ہر کہانی سسپنس نامی چیز سے خالی ہوتی ہے، اسی لیے ایسی فلمیں کامیاب بھی نہیں ہوتیں
فلم کی حد تک تو معاملہ قابل برداشت ہو سکتا ہے لیکن جب سوال انسانی زندگیوں کا ہو تو انسان کا دل کرتا ہے کہ ناکامیوں کی حقیقی تصویر بننے والے اداروں اور افراد کو گلے سی پکڑ کر پوچھا جاۓ کہ ان کو کس نے حق دیا ہےکہ وہ خلق خدا کے ساتھ
مسلسل مذاق کرتے رہے؟
مذاق نہیں تو آخر یہ کیا ہے؟
کیا ارباب اختیار پچھلے سال کے سانحے کو بھول گیے تھے جب گلگت بلتستان جیسے چوٹھے سے علاقے میں تقریبا ١٠٨ افراد لقمہ اجل بنے اور اپنے خاندانوں کو داغ مفارقت دے گیے؟ حیرت کی بات ہے کہ ان مرحومین میں ضلع گھانچے (جسے مقامی لوگ گھنگچے کے قدیم نام سے پکارتے ہیں) کے گاؤں تلس کے ١٣ افراد بھی شامل تھے. اس گاؤں پر ایک قیامت گزر چکی تھی اور اب دوسری گزری. شکر اس بات کا ہے کہ اس دفعہ انسانی جانوں کا نقصان نہیں ہوا ، لیکن کیا یہ بات کہنا غلط ہوگا کہ کسان سے اس کے کھیت کھلیان اور غریب سے اسکا گھر چھن جاۓ تو اسکی آدھی موت تو یونہی واقع ہو جاتی ہے؟
کیا ارباب اختیار پچھلے سال کے سانحے کو بھول گیے تھے جب گلگت بلتستان جیسے چوٹھے سے علاقے میں تقریبا ١٠٨ افراد لقمہ اجل بنے اور اپنے خاندانوں کو داغ مفارقت دے گیے؟ حیرت کی بات ہے کہ ان مرحومین میں ضلع گھانچے (جسے مقامی لوگ گھنگچے کے قدیم نام سے پکارتے ہیں) کے گاؤں تلس کے ١٣ افراد بھی شامل تھے. اس گاؤں پر ایک قیامت گزر چکی تھی اور اب دوسری گزری. شکر اس بات کا ہے کہ اس دفعہ انسانی جانوں کا نقصان نہیں ہوا ، لیکن کیا یہ بات کہنا غلط ہوگا کہ کسان سے اس کے کھیت کھلیان اور غریب سے اسکا گھر چھن جاۓ تو اسکی آدھی موت تو یونہی واقع ہو جاتی ہے؟
ہماری حکومتوں ، ریاستی اداروں اور حکمرانوں کا یہ خاصہ بن چکا ہے کہ قدرتی آفات کے خطرات کو کم کرنے کی کوششیں تو زیرو ہے لیکن کمبلوں، خیموں اور دالوں کا ذخیرہ ہمہ وقت تیار ملتا ہے. سچ پوچھیں تو ذمہ دار اداروں اور افراد کی ترجیحات ہی غلط ہیں، یہ بیماری کے بعد علاج کے لیے بادل ناخواستہ راضی ہو جاتے ہیں، لیکن خطرے کا بروقت ادراک کرنے، اور پیشگی منصوبہ بندی کرنے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہے. پوری دنیا میں ایسے طریقے اور آلات مروج ہیں جنکی مدد سے بہت حد تک خطرات کا پیشگی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور لوگوں کو مختلف طریقوں سے تیار بھی کیا جاتا ہے.
جاپان میں آنے والے حالیہ تباہ کن زلزلے کی مثال لیجیے، جس نے جزیرہ نما ملک کو اپنی جگہ سے ہلا دیا لیکن ٹوکیو اور دوسرے کئ شہروں کے خاص ترتیب سے بنی عمارتوں کو نہیں گرا سکا. اگر جاپان کی عمارتیں اور وہاں کی آبادی تیاری کی حالت میں نہیں ہوتے تو نہ جانے کتنے لاکھ لوگ مر جاتے، اور کتنے بےگھر ہو جاتے؟
یہ بات طے شدہ ہے کہ گلگت بلتستان انتہائی خطرے والی جغرافیائی حالات کا شکار ہے. اگر بروقت اقدامات نہیں اٹھاۓ گیے اور ترجیحات کو نہیں بدلا گیا، تو مستقبل میں اسطرح کے ، بلکہ اس سی کئی گنا زیادہ تباہ کن واقعات رونما ہو سکتے ہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ پالیسی ساز ادارے سر جوڈ کر بیٹھ جائیں اور گلگت بلتستان کے مخصوص جغرافیائی حالات کے حوالے سے قدرتی آفات کے خطرات کو کم کرنے اور منظم طریقے سے ان کا سامنا کرنے کا نظام مرتب کیا جاۓ. ہر ضلعے میں خطرے کی زد پر واقع مقامات کی نشا ندہی کی جاۓ اور انسانی آبادیوں کو لاحق خطرات کا قبل از وقت ادراک کرنے کے علاوہ وسائل پیدا کیے جاۓ اور ادارے وجود میں لیے جاۓ ، تاکہ انسانی جانوں اور املاک کے ضیاع کو روکا جا سکے.
کچھ غیر حکومتی ادارے ایک عرصے سے اس طرح کے قابل تقلید کام میں مصروف ہے. ان کی خدمات کو بروے کار لا کر حکومتی اداروں پر سے بوجھ کم کیا جا سکتا ہے.
وزیر اعلی اور دوسرے اعلی سیاسی عہدیداران نے تلس کے لوگوں کو یقین دلایا ہے کہ نہ صرف ان کے نقصانات کا ازالہ کیا جائیگا، بلکہ ان کو کسی دوسرے گاؤں میں بسایا جائیگا. کانوں کو اچھا لگنے والا یہ وعدہ دل پر اثر کرنے سے بوجوہ قاصر ہے. کیونکہ اسی حکومت کے اعمال ہماری نظروں کے سامنے ہیں.
سانحہ عطاء آباد کے متاثرہ طلبہ و طالبات آج تک اپنی فیسوں کی ادائیگی کے لیے بھیک مانگ رہے ہیں اور وزیر اعلی، وزیر تعلیم، سپیکر وغیرہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی. جب مزاحمتی آوازیں اٹھتی ہیں تو رسمی طور پر اخبار میں کوئی بیان دیا جاتا ہے، اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کی بھونڈی کوشش کی جاتی ہے. آوازیں موثر ثابت ہونے لگے تو سرکردہ افراد، یا ان کے خاندان کے کسی فرد کے خلاف ایک عدد "غداری" کا مقدمہ بنایا جاتا ہے.
متاثرین دیامر کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا ہے اور ان پر بھی لاٹھیوں اور آنسو گیس کے گولے پھینک کر حکومت کی "رٹ" ثابت کرنے کی مضحکہ خیز کوشش کی جا چکی ہے.
اللہ کرے کہ تلس کے متاثرین کا تجربہ تھوڑا سا مختلف ہو اور ارباب اختیار ان کے ساتھ اچھا "سلوک" کرے.
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔