Tuesday, September 14, 2010

حد گماں


آخر اس قید جاں سے نکلا ہوں 
اک شکستہ مکاں سے نکلا ہوں

خاک برسر صیح، مگر اے دوست
اک بھیانک زیاں سے نکلا ہوں 

لے کے پتھر چھپے ہیں تاک میں وہ
میں بھی حد گماں سے نکلا ہوں 

شہر کے لوگ دیکھتے ہیں مجھے
وہ سمجھتے ہیں شاں سے نکلا ہوں 

موت بے معنی، زیست بھی بے کار
میں تمہارے جہاں سے نکلا ہوں 

No comments:

Post a Comment

Your comment is awaiting moderation.

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages