آخر اس قید جاں سے نکلا ہوں
اک شکستہ مکاں سے نکلا ہوں
خاک برسر صیح، مگر اے دوست
اک بھیانک زیاں سے نکلا ہوں
لے کے پتھر چھپے ہیں تاک میں وہ
میں بھی حد گماں سے نکلا ہوں
شہر کے لوگ دیکھتے ہیں مجھے
وہ سمجھتے ہیں شاں سے نکلا ہوں
موت بے معنی، زیست بھی بے کار
میں تمہارے جہاں سے نکلا ہوں
No comments:
Post a Comment
Your comment is awaiting moderation.