آخر اس قید جاں سے نکلا ہوں
اک شکستہ مکاں سے نکلا ہوں
خاک برسر صیح، مگر اے دوست
اک بھیانک زیاں سے نکلا ہوں
لے کے پتھر چھپے ہیں تاک میں وہ
میں بھی حد گماں سے نکلا ہوں
شہر کے لوگ دیکھتے ہیں مجھے
وہ سمجھتے ہیں شاں سے نکلا ہوں
موت بے معنی، زیست بھی بے کار
میں تمہارے جہاں سے نکلا ہوں
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔Your comment is awaiting moderation.
اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔